رسائی کے لنکس

پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ امریکی کارروائی ،قیاس آرائی یا۔۔۔؟


پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ امریکی کارروائی ،قیاس آرائی یا۔۔۔؟
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ امریکی کارروائی ،قیاس آرائی یا۔۔۔؟

نیو یارک کے ٹائم اسکوائر میں بم دھماکے کی ناکام کوشش کو ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے مگر امریکی دفاعی ماہرین اور اخبارات گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ میں منظر عام پر آنے والے دہشت گردی کے کئی ناکام منصوبوں کی جڑیں پاکستان میں ہی تلاش کر رہے ہیں ۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکہ اپنے سب سے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مبینہ طور پر اطمینان بخش کارکردگی نہ دکھا نے پر دہشت گردوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کر سکتا ہے اور واشنگٹن کے تھنک ٹینکس میں اس امکان سے پہلے اور بعد کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے ۔

صدر اوباما کی جانب سے گزشتہ مہینے کے آخر میں امریکہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو نئی دستاویز سامنے آئی ہے اس میں فوجی وسائل کے غیر ضروری استعمال کوامریکی فوج اور امریکی قوم پر اضافی بوجھ سے تعبیر کرتے ہوئے سلامتی ، خوشحالی ، اقدار اور عالمی ترتیب کو اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کی ترجیحات قرار دیا گیا تھا ۔

گزشتہ ماہ کے آغاز میں نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں دہشت گردی کی ناکام کوشش کے بعدامریکی قومی سلامتی کے ادارے متحرک ہیں اور امریکہ آکر بسنے والے بظاہر ایک بے ضرر تعلیم یافتہ نوجوان کا نام اور اس سے متعلق چھوٹی بڑی خبریں پچھلے ایک ماہ سے امریکی اخبارات کی ہیڈلائنز کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ امریکی اخبارات جہاں پشاور اور کراچی کے گلی کوچوں میں فیصل شہزاد کے ذہن کی کایا پلٹ کی کہانی تلاش کر رہے ہیں، وہاں انہی اخبارات میں ایسے امکانات کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے جن میں پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر امریکہ کی جانب سے یکطرفہ کارروائی کی بات کی گئی مگر تمام امریکی ماہرین ایسے خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں ۔

نیشنل سیکیورٹی پروگرام کے پالیسی ایڈوائزر کائل اسپیکٹر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ مشکل ہے ، اگر پاکستان میں دہشت گردی کے کیمپ کام کر رہے ہیں تو وہ اس ملک کی حدود کے اندر ہیں ، اس میں یقینا پاکستان کی خود مختاری کا معاملہ آتا ہے ۔ امریکی انتظامیہ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان کی نظر اس بات پر ہوگی کہ پاکستانی فوج نے اس معاملے کو کتنی اہمیت دی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ حال ہی میں امریکی سینیٹ میں طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد قراردینے کی کوشش کی گئی تاکہ امریکہ کو طالبان کے خلاف کسی کارروائی کا اختیار مل جائے ۔ یا طالبان کے سرمایہ جمع کرنے کے راستے روکے جائیں ، لیکن یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے ۔ امریکہ کے لئے یہ آسان نہیں ہوگا کہ وہ پاکستان میں جہادی کیمپوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی براہ راست کردار ادا کرے ۔

کائل ا سپیکٹر واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کے امریکی سلامتی کے پروگرام سے منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ نیویارک میں دہشت گردی کی ناکام کوشش کے بعد امریکی عہدیداروں کی جانب سے دیے گئے سخت بیانات کامخاطب پاکستان نہیں امریکی عوام تھے اور امریکی دفاعی عہدیداروں کے پاکستان کے مسلسل دورے اسی افہام و تفہیم کو قائم رکھنے کی کوشش تھے جو دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ناگزیر ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ سیکرٹری کلنٹن نے اس سے پہلے کئی بار یہ کہا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کتنازیادہ تعاون کیا ہے ۔ اور وہ امریکہ کا کتنا اہم اتحادی ہے ۔۔تو میرے خیال میں امریکہ میں دہشت گردی کے واقعہ پر کسی حد تک یہ غصہ موجود ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع سے یہ پتا چلنے کے بعد کہ فیصل شہزاد کو پاکستان میں تربیت دی گئی تھی تو پبلک میں غصہ تو ہوگا اور پالیسی میکرز اور سیاستدان جو ردعمل ظاہر کرتے ہیں اس میں پاکستان کے لئے مذمت والا رویہ نظر آسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر سطح پر اتنا تعاون ہوا ہے ، اس کے باوجود ایسا کیونکر ہوا ۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی اتفاق کرتی ہیں کہ سیاستدانوں کے منفی بیانات بعض اوقات اندرونی دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ امریکی عہدیداروں کے بیانات اگر پاکستان کے عوام کی دل شکنی کا باعث بنیں تو یہ پاک امریکہ تعلقات کے لئے مثبت صورتحال نہیں ہوگی ۔

وہ کہتی ہیں کہ میرے خیال میں یہ ایک ایسا طرز عمل ہے جس کا الٹا نتیجہ نکلتا ہے ۔اس سے کسی ملک کا تعاون نہیں ملتا بلکہ الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا ماحول بھی منفی ہو جاتا ہے ،جب تک ماحول مثبت نہ ہو میں سمجھتی ہوں کہ تعاون لینا کسی بھی ملک سے مشکل ہوتا ہے ۔

ملیحہ لودھی نیویارک میں دہشت گردی کی ناکام کوشش کے بعد امریکہ میں پہلی باراندرونی دہشت گردی کی اصطلاح پر بحث کے آغاز کو خوش آئند قرار دیتی ہیں مگر ا ن کا کہنا ہے کہ بحث دہشت گردی کی وجوہات پر بھی ہونی چاہئےجو اب بھی شروع نہیں کی گئی ۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں شدت پسندی کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں امریکہ میں پہلی بار دیکھ رہی ہوں کہ یہاں ایسی بحث شروع ہوئی ہے کہ شدت پسندی کا جوعمل یہاں بھی ہورہا ہے اور جس میں افراد لوگ باہر جاکر ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان کی مدد کر سکیں ۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک مثبت چیز ہے کہ امریکہ میں بھی ایک بحث شروع ہو رہی ہے۔ ابھی یہ بہت آگے تک نہیں گئی اور وجوہات کی طرف ان کا رجحان نہیں رہا ۔اس میں یہ بھی ہے کہ صرف فوجی قوت سے یا سخت قانونی اقدامات سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے نظریاتی اور سیاسی ذرائع بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔

دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ڈرون طیاروں کے استعمال پر پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی جانب سے آواز بلند کی گئی ہے اور امریکی دفاعی ماہرین اب ہوم گرون ٹیرر یا اندرونی دہشت گردی کے نئے خطرے کو بیرون ملک سے آنے والے دہشت گردوں کے مقابلے میں امریکہ کے لئے زیادہ بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ایسے میں ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی اگر دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ حکمت عملی میں تبدیلی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔

XS
SM
MD
LG