رسائی کے لنکس

لاپتہ وکیل کا معاملہ، تھائی لینڈ میں انسانی حقوق کا امتحان


مزید شہادتوں کی خاطر تفتیش کا دائرہ وسیع تر کیا جائے گا؛ وزارتِ انصاف

چھ برس قبل، تھائی لینڈ کے انسانی حقوق کے ایک معروف وکیل لاپتہ ہوگئے تھے۔ معاملے کی گتھی جلد سلجھانے کے حکومتی وعدوں کے باوجود اب تک اُن کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

ملک کے انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ در حقیقت حکومت کے لیے انسانی حقوق کےضمن میں کارکردگی کا امتحان ہے۔

فروری سنہ 2004 کو انسانی حقوق کے وکیل سُومچائی نیلہ پیشٹ نے جنوبی تھائی لینڈ میں پولیس کی ناانصافی اور زیادتی پر لب کشائی کی تھی۔

سومچائی نے سنہ 2004میں فوجی ڈپو پر پڑنے والے چھاپے میں تھائی فوج کے اہل کاروں کے ملوث ہونے کاالزام عائد کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جن پانچ مسلمان افراد کو گرفتار کرکے اذیت دی گئی وہ بے گناہ تھے۔

یہی ان کے آخری کلمات تھے۔ ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ سومچائی کو بینکاک کی ایک سڑک سے اغوا کرکے ایک گاڑی میں دھکیل کر، نامعلوم مقام کی طرف لے جایا گیا۔ تب سے اُن کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوسکا، اور اُن کے اہل وعیال اور ساتھی کارکنوں کو گمان ہے کہ اُنھیں ہلاک کردیا گیا ہے۔


اغوا کےالزام میں پولیس کے پانچ عہدے داروں پرنسبتاً معمولی نوعیت کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ ایک پر حملے کے اقدام کا الزام دے کرتین سال کی قید سنائی گئی، جب کہ باقی تین کو باعزت بری کردیا گیا۔

سومچائی ہوملا، انسانی حقوق کے ایک اور تھائی وکیل ہیں جن کا لاپتہ وکیل کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اُن کے غائب ہونے کا براہِ راست تعلق اُن کی طرف سے پانچ مسلمانوں پر کی گئی اذیت کی نشاندہی کرنے سے ہے، جِن پر کسی غلط کاری کا الزام ثابت نہیں ہوپایا تھا۔

اُن کے بقول، ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ سومچائی کو اِس بنا پر اغوا کرکے غائب کیا گیا کیونکہ اُنھوں نے کمرہٴ عدالت میں بے گناہوں پر کی جانے والی اذیت کا معاملہ اُٹھایا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی پولیس والے نے جو اذیت دینے میں ملوث ہوگا اُس نے اِس ڈر کی بنا پر کہ اُس کے خلاف تفتیش نہ کی جائے اور سزا نہ ہو، اُسے غائب کرادیا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ پولیس والوں نے مسٹر سومچائی پر مظالم ڈھائے۔

وہ اُس وقت لاپتہ ہوئے جب حکومتِ تھائی لینڈ ملک کے جنوب میں فرقہ وارانہ فسادات پر کارووائی کر رہی تھی۔ اِسی علاقے میں زیادہ تر مسلمان اقلیت آباد ہے۔ لاپتہ وکیل بھی مسلمان تھے اور جنوب میں حکومت کے اقدامات پر آوازبلند کرتے رہتے تھے، اور مبینہ طور پر پولیس اور فوج کی زیادتیوں کے معاملات اُٹھاتے رہے تھے۔

گذشتہ سال، ہیومن رائیٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ تھائی لینڈ کے پانچ وزرائے اعظم نے اِس بات کو تسلیم کیا ہے کہ سومچائی کے اغوا میں پولیس عہدے داروں کا ہاتھ تھا۔ لیکن ظلم ڈھانے والوں کو کبھی سزا نہیں دی گئی۔

سُنائی پاسوک، تھائی لینڈ میں ہیومن رائٹس واچ کے نمائندے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انصاف اِس لیے نہیں مل پارہا کہ پولیس کی مزاحمت کا عنصر غالب رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اُن کےپاس نوکرشاہی کی طرف سے سامنے آنے والی مزاحمت کے واضح ثبوت موجود ہیں، مثلاً سومچائی نیلہ پیشٹ جیسے جنوبی تھائی لینڈ کے دوسرے افراد شامل ہیں جنہیں تھائی لینڈ کی شاہی پولیس کی طرف سے تعاون نہیں ملا۔ مقدمے کی بنیادی ذمہ داری وزارتِ انصاف کے چھان بین کے سپیشل محکمے کی ہے۔

ایک سال قبل مقدمے کی تفتیش کے بارے میں توقعات اُس وقت بڑھ گئی تھیں جب وزیر اعظم ابھیسٹ وِجا جیوا نے عہدہ سنبھالا۔ اُنھوں نے نامہ نگاروں کی موجودگی میں سومچائی کی اہلیہ کو بتایا کہ تفتیش کو آگے بڑھایا جائے گا۔

اُن کے الفاظ تھے، ہاں میں ہر ممکن اقدام کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چھان بین کے سلسلےمیں پیش رفت کے قوی امکانات ہیں۔


سومچائی کی اہلیہ انگکانہ نیلہ پیشٹ کہتی ہیں کہ اِن حالات کے باعث اُنھیں سخت مایوسی کا سامنا ہے۔

وزارتِ انصاف کے تفتیش کاروں نے حال ہی میں اِس بات کی حامی بھری ہے کہ مزید شہادتوں کی خاطر تفتیش کا دائرہ وسیع تر کیا جائے گا، جیسا کہ موبائل فون کادستیاب ریکارڈ وغیرہ۔ لیکن انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ ادارے کو اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے بعد ہی عدالت سے رجوع کرنا چاہیئے، وگرنہ مقدمہ خارج ہوجانے کا خطرہ ہے۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ سومچائی نیلہ پیشٹ مقدمہ تھائی لینڈ کی حکومت کے لیے آزمائش کا لمحہ ہے۔ تھائی قانون کے تحت کسی کو قتل یا اغوا کا ملزم ثابت کرنے کے لیے فوجداری مقدمہ دائر کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ یا تو سومچائی کا کھوج نکالے یا پھر اُس کی لاش برآمد کرے۔

XS
SM
MD
LG