رسائی کے لنکس

اسرائیل میں تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ورکرز کی بڑی تعداد کیوں ہے؟


حماس کی جانب سے رہا کیے گئے تھائی یرغمالی۔ فائل فوٹو۔
حماس کی جانب سے رہا کیے گئے تھائی یرغمالی۔ فائل فوٹو۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے علاوہ سب سے زیادہ جانی نقصان تھائی باشندوں کا ہوا ہے۔ اسی طرح حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو کیے گئے حملے میں بھی دیگر قومیتوں میں سب سے زیادہ یرغمالوں کا تعلق بھی تھائی لینڈ سے ہے۔

حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں 12 سو اسرائیلی ہلاک ہوئے جب کہ حماس نے تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 32 اور یرغمالوں میں 26 تھائی باشندے شامل تھے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جمعے سے شروع ہونے والی عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے بعد دونوں جانب سے یرغمال اور قید کیے گئے افراد کا تبادلہ ہوا ہے۔ حماس نے جن یرغمالوں کو رہا کیا ہے ان میں اسرائیلی اور دیگر شہریوں کے علاوہ اب تک 17 تھائی باشندے بھی رہا کیے ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں تھائی باشندے اسرائیل میں کیوں تھے؟ اور بڑی تعداد میں تھائی باشندوں کی اسرائیل آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اس کی تفصیلات یہاں دی جارہی ہیں۔

زرعی ورکرز

جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے زرعی ورکرز روزگار کے لیے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مقامی سطح پر ملنے والی اجرتوں سے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اچھی اجرت ملتی ہے۔ تھائی لینڈ سے بھی زرعی ورکرز کی بڑی تعداد ترقی یافتہ ممالک جاتی ہے۔

اسرائیل میں ان کی آمد کا سلسلہ 1987 سے 1993 کے دوران جاری رہنے والے پہلے فلسطینی انتفادہ یا مزاحمت کے بعد شروع ہوا۔ اس مزاحمت کے بعد فلسطینی مزدوروں پر اسرائیلی آجروں کا اعتماد متزلزل ہوگیا اور انہوں نے بیرونِ ملک سے ورکز لانا شروع کر دیے۔

اس دور میں تھائی ورکرز کی آمد کے بعد آج تھائی باشندے اسرائیل کے زرعی شعبے میں سب سے بڑی افرادی قوت بن چکے ہیں۔ دونوں ممالک نے دہائیوں قبل زرعی ورکرز کی بہ آسانی آمد و رفت کے لیے دو طرفہ معاہدہ بھی کیا تھا۔

اس کے بعد سے اسرائیل میں کام کرنے والے کئی فلسطینی ورکرز واپس اپنے علاقوں کی جانب لوٹ گئے تھے اور حماس کے حملے سے قبل اسرائیل میں کام کرنے والی نصف افرادی قوت غیر ملکی اور فلسطینی مزدوروں پر مشتمل تھی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حالیہ برسوں میں زرعی شعبے میں کام کرنے والے تھائی مزدوروں کو در پیش حالات کی وجہ سےا سرائیل کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کی 2015 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تھائی ورکرز کو عام طور پر عارضی رہائش گاہوں میں رکھا جاتا ہے اور ناکافی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تھائی باشندوں کو قانونی طور پر مقرر کردہ حد سے کم اجرت دی جاتی ہے اور زیادہ زیادہ سے زیادہ مقررہ وقت کی حد سے زائد اضافی کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان ورکرز کو غیر محفوظ حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اور انہیں ملازمت تبدیل کرنے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اسرائیل میں تقریباً 30 ہزار تھائی باشندے کام کرتے ہیں۔ حماس کے حملے کے بعد لگ بھگ آٹھ ہزار تھائی ورکرز کو وطن واپس بھجوایا گیا۔ تاہم اسرائیل کی وزارتِ زراعت نے ورکرز کو واپس لانے کے لیے ورکرز کو ویزا میں توسیع کی سہولت اور 500 ڈالر ماہانہ بونس دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔

اسرائیل حماس جنگ: قطر کا کیا کردار ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:32 0:00

ورکرز محفوظ ہیں؟

تھائی لینڈ نے حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے باشندوں کی رہائی کے لیے مختلف سطح پر رابطوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ابتدائی طور پر تھائی وزیرِ اعظم تھاویسین نے اسرائیلی ہم منصب بن یامین نیتن یاہو سے رابطہ کیا۔

تھائی وزیرِ اعظم نے اسرائیل میں کام کرنے والے شہریوں پر وطن واپسی کے لیے زور بھی دیا تھا۔

تاہم اسرائیل میں کام کرنے والے تھائی لینڈ کے زرعی ورکرز پر تحقیق کرنے والی یاہیل کرلندر کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2012 میں ہونے والے معاہدے کے بعد بڑی تعداد میں تھائی باشندے اسرائیل آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ حماس کے حملوں کے بعد سات ہزار افراد نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اکثریت نے اسرائیل ہی میں قیام کو ترجیح دی ہے۔

کرلندر کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں کام کرنے والے تھائی باشندے محفوظ ہیں کیوں کہ وہ غزہ سے دور واقع علاقوں میں کام کررہے ہیں۔

رہائی کیسے ہوئی؟

اسرائیل اور حماس کے درمیان قطر، مصر اور امریکہ کی معاونت سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد جب جمعے کو یرغمالوں اور قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتدائی طور پر 10 تھائی باشندے بھی رہا کیے گئے۔

اس موقعے پر بینکاک میں ایرانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تہران نے تھائی لینڈ کے پارلیمانی وفد اور وزارتِ خارجہ کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق حماس سے تھائی باشندوں کی رہائی کے لیے سہولت کاری کی ہے۔

اسرائیل حماس جنگ: روس کیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:14 0:00

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اکتوبر میں تھائی اسپیکر وان محمد نور ماتھا کی سربراہی میں ایران کا دورہ کرنے والے مسلمان ارکان کے وفد کا کہنا ہے کہ انہوں نے تہران میں حماس کے نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کیے تھے۔ وفد میں شامل تھائی ایران الومنائی ایسوسی ایشن کے صدر لرپونگ سید کا دعویٰ ہے کہ حماس کی جانب سے تھائی باشندوں کی رہائی اسی پارلیمانی وفد کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

حماس کے یرغمال بنائے گئے باشندوں کی رہائی کے لیے تھائی لینڈ کا ایک پارلیمانی وفد گزشتہ ماہ ایران گیا تھا جو حماس کا قریب ترین اتحادی تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب تھائی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے یرغمال شہریوں کی فہرست قطر، مصر، اسرائیل اور ایران کو بھی فراہم کی تھی۔

تاہم تھائی لینڈ نے تاحال ایران کا دورہ کرنے والے تھائی مسلم گروپ کے دعوؤں کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جمعے کو حماس کی حراست سے رہا ہونے والے تھائی یرغمالوں کی رہائی اسرائیل کے ساتھ حماس کی جنگ بندی کے معاہدے سے علیحدہ ہونے والے ایک سمجھوتے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق قطر اور مصر نے تھائی یرغمالوں کی رہائی کے لیے حماس سے علیحدہ مذاکرات کیے تھے۔ اس گفت و شنید کا آغاز 31 اکتوبر کو تھائی وزیرِ خارجہ کے دورۂ قطر کے بعد ہوا تھا۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG