رسائی کے لنکس

تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کے اسباب


بچوں کی اموات کی باعث بیماریاں نمونیہ، اسہال اور خسرہ ہیں، جب کہ آدھے سے زائد موات کی وجہ ناقص یا ناکافی غذا سے پیدا ہونے والی خرابی ہے

پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے، تھر میں بچوں کی ہلاکتوں پر ہر زاویے سے بات ہو رہی ہے۔ کوئی اسے حکومت کی غفلت اور ناہلی بتاتا ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اموات قحط سے نہیں غربت کے نتیجے میں ہونے والی غذائی قلت سے ہوئیں۔

کچھ لوگ ان اموات کو سرد موسم، گندے پانی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو قرار دیتا ہے۔

لیکن، ایک بات پر سب متفق ہیں کہ تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں؛ اور ضرورت اس بات کی کہ مؤثر اقدام کرکے بچوں کی مزید اموات کو روکا جائے۔

پاکستان میں بچوں کے ڈاکٹروں کی تنظیم، پاکستان پیڈیاٹرک اسوسی ایشن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ غذائی قلت کسی بھی قسم کی ہو چاہے اس میں کیلیریز یعنی ہرارے کم ہوں، چاہے معدنیات کم ہوں، وٹامنز کم ہوں: اس کی وجہ سے انسان کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں، ہر قسم کے جراثیم انسانی جسم پر حملہ کر دیتے ہیں اور انسان اس بیماری کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔

پروفیسر میمن کا کہنا ہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی ایک اور وجہ گندا پانی بھی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو دست اور الٹیاں ہو جاتی ہیں اور جس کی وجہ سے انسانی جسم کا پانی اور نمکیات کم ہوجاتے ہیں اور انسان موت کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں بچوں کے ڈاکٹروں میں بزرگ ڈاکٹر سمجھے جانے والے، دی

آغا خان یونیورسٹی ہاسپیٹل کراچی میں بچوں کے شعبے کے سربراہ اور ’ہینڈز‘ نامی فلاحی ادارے کے سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر غفار بلو نے بتایا کہ بچوں کی اموات کی ذمہ دار بیماریاں جیسا کہ نمونیہ، ڈائریہ اور خسرے سے ہونے والی اموات میں سے آدھی سے زیادہ اموات کی وجہ ناقص یا ناکافی غذا ہے۔

پروفیسر بلو کا کہنا تھا کہ اگر ایک بچہ نمونیہ، دست، خسرہ، ٹی بی یا کسی بھی بیماری کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہو تو ان میں سے جس کو غذائی قلت کا سامنا رہا ہوگا، اس کے مرنے کے امکانات بہت زیادہ ہونگے، جبکہ وہ بچہ جس کی غذا اچھی رہی ہوگی اس کے بچنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
XS
SM
MD
LG