رسائی کے لنکس

افغانستان: تین این جی اوز کی جزوی امدادی سرگرمیاں شروع


کابل میں خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ۔ فائل فوٹو
کابل میں خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ۔ فائل فوٹو

کم از کم تین سرکردہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے ,طالبان حکام کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد کہ افغان خواتین صحت کے شعبے میں کام جاری رکھ سکتی ہیں، افغانستان میں زندگی بچانے کا کام جزوی طور پر دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

افغانستان کی 3 کروڑ آٹھ لاکھ کی آبادی میں سے نصف تعداد کو بھوک کا سامنا ہے جب کہ 30 لاکھ بچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سینکڑوں این جی اوز ، دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ے نمٹنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

تین معروف امدادی تنظیموں، کیئر، سیو دی چلڈرن اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے دسمبر کے آخر میں طالبان حکام کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت روکنے کے حکم نامے کے بعد احتجاجاً اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔

ایک این جی او ،سیو دی چلڈرن نے اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے گزشتہ چند دنوں سے صحت کے شعبے میں دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ان کا کہناتھا کہ ہمیں متعلقہ حکام کی طرف سے واضح، اور قابل اعتماد یقین دہانیاں موصول ہوئی ہیں کہ ہماراخواتین کا عملہ محفوظ رہے گا اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر سکتی ہیں ۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب پابندیا ں ابھی بھی عائد ہیں ، جہاں ہمارے پاس یہ قابل اعتماد یقین دہانی نہیں ہے کہ ہماری خواتین ساتھی آزادانہ کام کر سکتی ہیں وہاں ہم نے اپنی کارروائیاں روکی ہوئی ہیں۔

کیئراور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے بھی تصدیق کی کہ انہوں نے صحت کے شعبے میں خواتین کے عملے کے ساتھ دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

بین الاقوامی برادری اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ امدادی شعبے میں خواتین پر پابندی کے حکم کو واپس لے، کیونکہ اس سے ملک کو دی جانے والی آئندہ امداد کی فراہمی پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

اس پابندی کا حکم دینے والی طالبان کی وزارت معیشت کے ترجمان عبدالرحمن حبیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ خواتین کو صحت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیونکہ ہمارے معاشرے کو اس وقت اس کی ضرورت تھی۔

اب ہمیں ان کی ضرورت ہے کہ وہ غذائی قلت کے شکار بچوں اور دیگر خواتین کی مدد کریں جنہیں صحت کی خدمات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا یہ عملہ ہماری مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مطابق کام کر رہا ہے۔

نئی ہدایات

دو امدادی اہل کاروں نے بتایا ہے کہ خواتین کو تعلیم، پانی، صفائی ستھرائی اور خوراک کی تقسیم سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

ایک غیر ملکی این جی او کے امدادی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں امید ہے کہ جلد ہی نئی ہدایات سامنے آئیں گی۔

ایک اور امدادی کارکن نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکام خواتین کو دوسرے منتخب شعبوں میں بھی کام کی اجازت دےسکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ توقع ہے کہ عہدہ دار ، این جی اوز سے پوچھیں گے کہ ان کی تنظیموں اور کام کے شعبوں میں کون سے مخصوص شعبوں کے لیے خواتین پر مشتمل عملے کی ضرورت ہے، اور اس کے مطابق انہیں اجازت دی جا سکتی ہے۔

طالبان کے ایک سینئر اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ،خواتین کو ملازمت دینے کی وجوہات این جی اوز کو فراہم کرنی ہوں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت اقتصادیات ،فراہم کی گئی وجوہات کا جائزہ لے گی اور اگر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو این جی اوز سے کہا جائے گا کہ وہ خواتین ملازمین کے لیے کام کرنے کا اچھا ماحول فراہم کریں۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ خواتین ،حجاب پہننے یا سفر کے دوران کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ جانے سے متعلق ان قوانین کی پابندی نہیں کر رہی تھیں، جو انتہائی قدامت پسند عہدہ داروں کی طرف سے جاری کیے گئے تھے۔

امدادی عہدیداروں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیموں نے پہلے ہی مرد اور خواتین اہل کاروں کو الگ الگ رکھا تھا اور خواتین حجاب پہنتی تھیں۔

افغان خواتین کے حقوق کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں مظاہرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:31 0:00

خواتین کارکن افغانستان میں بہت سی امدادی کارروائیوں کے لیے بہت اہم ہیں، خاص طور پر دوسری ضرورت مند خواتین کی شناخت کے لیے۔

گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے ، دو تباہ کن پابندیاں عائد کی گئیں جس میں سے پہلی وہ تھی جب حکام نے پہلی بار خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روک دیا تھا۔

اگست 2021 میں طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ، افغان خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور انہیں عوامی زندگی سے مکمل طور پر الگ کر دیا ہے۔

لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کی تعلیم پر پہلے ہی پابندی عائد ہے، اور بہت سی خواتین سرکاری ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔

خواتین کو پارکوں، ورزش گاہوں اور عوامی حماموں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

خبر کا کچھ مواد ،خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG