رسائی کے لنکس

پشاور کی مسجد پر خود کش حملے کے تین مبینہ سہولت کار ہلاک؛ پولیس حکام کا دعویٰ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کی پولیس نے منگل کی شب پشاور اور ضلع خیبر کے سرحدی علاقے میں ایک جھڑپ کے دوران تین مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پشاور کی جامع مسجد پر خود کش حملے میں مبینہ طور پر سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا ۔

خیبر پختونخوا کی انسداد دہشت گردی پولیس کی طرف سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے تینوں مبینہ عسکریت پسندوں کو اس وقت کارروائی کر کے ہلاک کیا جب وہ ضلع خیبر سے پشاور شہر میں کسی کارروائی کے ارادے سے داخل ہو رہے تھے۔

پولیس نے ہلاک ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضے سے خود کار اسلحے کے علاوہ دستی بم بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پولیس کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے تینوں شدت پسندوں نے گزشتہ ہفتے پشاور کی جامع مسجد پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ پولیس کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہونا ابھی باقی ہے ۔

پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں افراد کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم داعش سے ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ تین شدت پسند ضلع خیبر میں موجود ہیں او ر وہ مبینہ طور پر کسی تخریب کاری کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اطلاع ملنے کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کی ۔

پشاور دھماکہ: 'اب سیکیورٹی کا کیا فائدہ حملہ آور تو اپنا کام کر گئے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:12 0:00

پولیس کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران شدت پسندوں نے پولیس ٹیم پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں تینوں شدت پسند ہلاک ہو گئے۔

کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) پشاورمحمد اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس پشاور کی جامع مسجد پر چار مارچ کو ہونے والے خود کش حملے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کے بہت قریب پہنچ چکی ے۔

محمد اعجاز خان کا کہنا تھا کہ پولیس بہت جلد اس واقعے کے مبینہ منصوبہ ساز کو بھی گرفتار کر لے گی۔

خودکش حملہ آور کون تھا؟

ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق پشاور کی مسجد پر خود کش حملے میں ملوث شخص کا تعلق مبینہ طور پر افغانستان سے تھا ۔

رپورٹس کے مطابق خود کش حملہ آور 2020 تک پاکستان میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم رہا اور بعد ازاں وہ افغانستان منتقل ہو گیا تھا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور کا خاندان ایک مدت سے پشاور میں مقیم ہے اور خود کش حملہ آور نے پاکستان کا شناختی کارڈ بھی حاصل کر رکھا تھا۔

پولیس نے حملہ آور کی شناخت احسان عبداللہ کے نام سے کی تھی اور اس کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم داعش سے بتایا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے مبینہ خود کش حملہ آور کے خاندان کے افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے۔

پولیس نے خود کش حملے میں ملوث افراد یا سہولت کاروں کی گرفتار ی کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔

پشاور دھماکے کے بعد اب شہر کی کیا صورتِ حال ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:18 0:00

ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق پولیس نے لگ بھگ 22 افراد کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پشاور کی جامع مسجد پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شیعہ برادری کے متعدد سرکردہ سیاسی و سماجی رہنما بھی شامل ہیں۔

اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 66 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 20 زخمی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

دھماکے کا نشانہ بننے والی پشاور کے علاقے قصہ خوانی کے کوچہ رسالدار میں واقع شیعہ جامع مسجد کو وہی حیثیت حاصل ہے جو اس شہر کی اہلسنت کی مسجد مہابت خان، سنہری مسجد اور مسجد درویش کو حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG