رسائی کے لنکس

شمالی کوریا چاہے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں: ٹیلرسن


امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اپنے مصری یم منصب کے ساتھ قاہرہ میں مشترکہ نیوز کانفرنس کر رہے ہیں
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اپنے مصری یم منصب کے ساتھ قاہرہ میں مشترکہ نیوز کانفرنس کر رہے ہیں

اُنہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کو خود طے کرنا ہو گا کہ وہ ہمارے ساتھ بامعنی مذاکرات شروع کرنے کیلئے کب تیار ہو گا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ اُس کے جوہری اور بیلسٹک میزائیلوں کے حوالے سے مذاکرات ممکن ہیں بشرطیکہ شمالی کوریا بامعنی مزاکرات پر راضی ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر اس وقت مصر میں موجود ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کو خود طے کرنا ہو گا کہ وہ ہمارے ساتھ بامعنی مذاکرات شروع کرنے کیلئے کب تیار ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اسے مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر کیا بات کرنی ہے۔

وزیر خارجہ ٹیلرسن اپنے مصری ہم منصب سامع شوکری کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اُنہوں نے دورہ مصر کے دوران لیبیا اور شام کے بارے میں بات چیت کرنے کے علاوہ اسرائیل فلسطین امن پروگرام کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ اُنہوں نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصر کی مدد کرتا رہے گا۔ وہ مصر سے روانہ ہونے سے پہلے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی سے بھی ملاقات کریں گے۔

مصر میں اگلے ماہ صدارتی انتخاب ہو رہا ہے اور توقع ہے کہ السیسی دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں گے۔ اُن کے بیشتر مخالف اُمیدواروں نے انتخاب سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے جن میں وہ اُمیدوار بھی شامل ہیں جنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا یا جن پر انتخاب سے دستبردار ہونے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ اُن کے خیال میں مصر کا یہ صدارتی انتخاب کس حد تک منصفانہ اور شفاف ہو گا، ٹیلرسن نے کہا کہ امریکہ ہر ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت کرتا ہے۔ اس موقع پر مصر کے وزیر خارجہ شوکری نے کہا کہ بعض انسانی حقوق کے علمبردار گروپ مصر میں انتخابی ماحول پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ تاہم اُنہیں حقائق کا علم نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف مصری عوام کو ہے کہ وہ اپنی آزادی اور سیاسی سرگرمیوں کو کیسے بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔

ٹیلرسن اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران اُردن، ترکی، لبنان اور کویت بھی جائیں گے۔ ترکی کے دورے کے دوران وہ ترکی پر زور دیں گے کہ وہ حراست میں لئے گئے امریکیوں کو رہا کر دے اور شام کے شمالی علاقوں میں فوجی کارروائیوں سے اجتناب کرے۔ ترکی نے ناسا کے ایک سائینسدان سرکن گولگے کو جولائی 2016 میں گرفتار کر لیا تھا اور بقول امریکی حکام کے تسلی بخش شواہد کے بغیر ترکی کی حکومت نے اسے 8 فروری کو کسی دہشت گرد تنظیم کا رکن قرار دے کر سزا سنا دی تھی۔ اس کے علاوہ یکم فروری کو ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر کے چیئرمین ٹینر کیلیچ کو بھی دہشت گردی کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کا ترکی یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہو رہا ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق اور شام کے بحران کے حوالے سے بھی امریکہ اور ترکی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی نیٹو اتحادی ملک ہے اور کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں میں موجود باہمی مفادات کے حوالے سے یہ بات چیت بہت اہم ہو گی۔

ترکی کے صدر طیب اردگان نے امریکہ میں مقیم جلاوطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن پر اُن کے خلاف ہونے والی بغاوت کی حمایت کرنے کا الزام لگایا تھا اور امریکہ سے کہا تھا کہ گولن کو اُس کے حوالے کرے۔

اُردن کے دورے میں ٹیلرسن اُردن کے رہنماؤں سے دوطرفہ تعاون کے نئے سمجھوتے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ شام کے بحران اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے حوالے سے اُردن کے تعاون پر گفتگو کریں گے۔

اُردن کے بعد امریکی وزیر خارجہ لبنان جائیں گے جہاں وہ صدر مائیکل آؤن ، وزیر اعظم سعد حریری اور پارلیمان کے سپیکر نبیح بیری سے ملاقات کریں گے۔ بعد میں وہ کویت جائیں گے جہاں وہ داعش کو شکست دینے کے سلسلے میں قائم 74 ارکان پر مشتمل وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

XS
SM
MD
LG