رسائی کے لنکس

ٹائمز سکوئر منصوبے کے بارے میں کئی سوالات اب بھی حل طلب ہیں


ٹائمز سکوئر منصوبے کے بارے میں کئی سوالات اب بھی حل طلب ہیں
ٹائمز سکوئر منصوبے کے بارے میں کئی سوالات اب بھی حل طلب ہیں

‘اُس نے کیونکر اتنا بُرا بم بنایا اور پھر اتنی بری طرح فرار ہونے میں ناکام ہوا؟: لیری گڈسن

نیو یارک کے مصروف ترین ٹائمز سکوئر کو کاربم حملے میں اُڑانے کی ناکام کوشش کرنے والے مشتبہ شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اہل کاروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ دریں اثنا، اعلیٰ ترین امریکی سکیورٹی عہدے دار، بشمول سی آئی اے کے ڈائریکٹر پاکستان جا چکے ہیں تاکہ حکومت پر زور ڈالا جاسکے کہ وہ ملک میں تفتیشی کڑیوں کی چھان بین کو یقینی بنائیں۔

امریکی عہدے داروں نے پاکستانی طالبان پر الزام لگایا ہے کہ ٹائمز سکوئر کی سازش کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ تھا۔ لیکن اِس سازش کے واحد ملزم فیصل شہزاد نے اب تک جو انکشاف کیا ہے اُس سے زیادہ اُنھوں نے کچھ نہیں کہا ہے، سوائے اِس کے کہ وہ بیان دے رہا ہے، اور یہ کہ اُس نے پاکستان میں بم بنانے کی تربیت حاصل کی تھی۔

امریکہ کے آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گُڈسن، جو پاکستانی اور افغان امور کے ماہر ہیں ، کہتے ہیں کہ اُنھیں حیرت ہے۔ اُن کے الفاظ میں ‘آپ 9/11کے بعد یا کم از کم لندن کے بم دھماکوں کے بعد ایک شخص کو سب سے بڑے مشن پر بھیج رہے ہیں اور آپ ایک شخص کو وہاں بھیج رہے ہیں جو اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتا۔ بس یہ کچھ ایسی ہی بات ہے اور اِس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو آپ کی دانست میں صحیح نہیں ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔’
پاکستانی طالبان یا تحریکِ طالبان ایک واحد متحد ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کی چھتری ہے جِس کے پیچھے متعدد انتہا پسند جتھے جمع ہوگئے ہیں جِن کا مشترکہ نصب العین مملکتِ پاکستان کی مخالفت کرنا ہے۔
تجزیہ کار تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ پاکستانی طالبان القاعدہ سے الگ ہیں، اُنھوں نے امریکہ پر نظریں گاڑنے کے القاعدہ کے نصب العین کو آہستہ آہستہ اپنانا شروع کردیا ہے۔
فلپ مَڈ، ایف بی آئی کے قومی سلامتی ڈویژن کے سابق سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی طالبان پر دونوں امریکہ اور پاکستان کی طرف سے جو دباؤ پڑا ہے اُس کی وجہ سے وہ امریکہ کو براہِ راست نشانہ بنانے پر تیار ہوگئے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں ‘طالبان القاعدہ سے جو نظریاتی سبق حاصل کر رہے ہیں اُس کے ساتھ ساتھ پچھلے ایک دو سال کے دوران اُنھیں زیادہ سے زیادہ دباؤ محسوس ہو رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کی وجہ سے ہے اور اب ہم امریکہ کو یہی مزا چکھائیں گے۔’
فیصل شہزاد کا تعلق پاکستان کے ایک فوجی خاندان سے ہے۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُس نے ایک مالیاتی تجزیہ کار کی حیثیت سے ملازمت کرلی اور پچھلے سال امریکی شہریت حاصل کی۔
اِسی دوران، کسی مرحلے پر انتہا پسندی اُس پر غالب آگئی اور اُس نے پاکستانی طالبان کو اپنی خدمات پیش کیں۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک رضاکار پر اعتبار کرنے پر کیوں تیار ہوگئے ۔ انٹیلی جنس کی اصطلاح میں اُسے نو وارد ہی کہہ سکتے ہیں۔
لیری گُڈسن کا کہنا ہے کہ اُس پر طالبان نے کافی شبہ کیا ہوگا کہ وہ کہیں امریکی یا پاکستانی جاسوس تو نہیں۔ ‘اگر آپ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک بڑے دہشت گرد لیڈر کی حیثیت سے یقینی طور پر یہ گمان گزرے گا کہ کہیں آپ ڈبل ایجنٹ تو نہیں اور آپ مجھے گمراہ تو نہیں کر رہے اور آپ کے بارے میں یہ سوچنامحال ہوگا کہ آپ کو اکیلے بڑے دلیرانہ مشن پر بھیجا جائے۔’
ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ شہزاد کس حد تک دلیر تھا۔ ابھی تک اعلانیہ طور پر بھی نہیں بتایا گیا کہ اُس کا کوئی شریکِ جرم بھی تھا یا نہیں۔
لیکن، فلپ مَڈ، جو سی آئی اے کے تجزیہ کار بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ القاعدہ یا طالبان کسی بھی شخص کو سکیورٹی کا کوئی بڑا خطرہ مول لیے بغیر نہایت ہی ابتدائی نوعیت کی تربیت دے سکتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں ‘اِس تنظیم کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نیو یارک سے آنے والے کسی شخص کے سامنے اپنے نہایت ہی سربستہ راز کھولے اور کہے کہ ہاں جی پروپین گیس کے ٹینکوں کو اِس طرح جوڑا جاتا ہے۔ چناچہ، میرا خیال ہے کہ مغربی یورپ میں حالیہ برسوں میں ہم نے جو کچھ دیکھا ہے اور یہاں امریکہ میں ہم نے جو کچھ دیکھا ہے ، اُس کی روشنی میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ وہ اب نسبتاً کم سطح کے لوگوں سے کام لے رہے ہیں اور اُنھیں کہتے ہیں: جاؤ جی، یہ کرکے دیکھو۔ ’
ہیرٹیج فاؤنڈیشن کی لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ ٹائمز سکوئر سازش کی ایک متبادل تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ یہ شہزاد کے لیے ایک طرح کا امتحان تھا۔
لیزا کے الفاظ میں ‘ایک تھیوری یہ ہے کہ اِس کا پاکستانی طالبان یا کسی دوسری جنگجو تنظیم سے رابطہ تو ضرور ہوا لیکن اُسے وہ مکمل تربیت نہیں دی گئی جو وہ کسی ایسے شخص کو دیتے ہیں جِس پر اُنھیں مکمل اعتماد ہو۔ اِس لیے وہ شاید یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا کچھ کرنے کے قابل ہے، قبل اِس کے اُسے کسی بڑی سازش پر روانہ کیا جائے۔’
آتشیں اسلحے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائمز سکوئر میں اُس گاڑی میں جو بم رکھا ہوا تھا اُس کا ڈیزائن اور ساخت ناقص تھی۔ اُسی وجہ سے وہ پھٹا ہی نہیں، اور لیری گڈسن کا کہنا ہے کہ شہزاد نے جِس طرح فرار ہونے کی کوشش کی اُس میں بھی اناڑی پن تھا۔

اُن کے بقول، ‘اُس نے کیونکر اتنا بُرا بم بنایا اور پھر اتنی بری طرح فرار ہونے میں ناکام ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اِس قسم کی حرکت کرتا تو گاڑی یا کار میں بیٹھ کر ذیلی سڑکوں سے ہوتا ہوا ملک کا رُخ کرتا اور راستے میں پٹرول کے نقد پیسے ادا کرتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیونکر نیویارک کی ایک ائیرپورٹ جاتے ہیں اور دبئی جانے کی سوچتے ہیں۔’
شہزادکے پاس کافی نقدی تھی جو حوالہ کے ذریعے ملی تھی۔ روپے کی منتقلی کا یہ طریقہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اِس نقدی کے بارے میں متعدد لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور تفتیش کرنے والے اِس تلاش میں ہیں کہ یہ نقدی آئی کہاں سے ۔

XS
SM
MD
LG