رسائی کے لنکس

قومی سلامتی کونسل کا اجلاس، تحریکِ لبیک کے 'غیر آئینی' مطالبات تسلیم کرنے سے انکار


پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے غیر آئینی مطالبات کسی صورت تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ البتہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ان سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق جمعے کو ٹی ایل پی کے احتجاج کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیش نظر اسلام آباد میں وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان سمیت دیگر اعلٰی حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی بھی حکومت نے ناموسِ رسالت کے تحفظ اور اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر اتنا کام نہیں کیا جتنا اس حکومت نے کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ معاملہ کامیابی سے اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز میں اُٹھایا۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے کالعدم تحریکِ لبیک کی جانب سے ناموسِ رسالت کے غلط اور گمراہ کن استعمال کی شدید مذمت کی۔

’حکومت یہ مذاق زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی‘

بعد ازاں قومی سلامتی کمیٹی کے حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مظاہرین گھر واپس چلے جائیں حکومت یہ مذاق زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے بزور طاقت مطالبات نہیں منوائے جا سکتے۔ جو بھی معاملہ ہو گا اسے آئین و قانون کے تحت دیکھا جائے گا۔ اسے ریاست کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر طرح سے تیار ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو بھی تیار رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ حکومت کوئی بھی انتہائی اقدام نہیں چاہتی۔

تحریکِ لبیک پاکستان کالعدم جماعت ہے یا نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:16 0:00

اس سے قبل حکومتِ پاکستان نے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے اسلام آباد کی جانب رواں دواں مارچ کو روکنے کے لیے دریائے جہلم کے اطراف رینجرز تعینات کر دی تھی۔

ٹی ایل پی مارچ کے شرکا کا گوجرانوالہ سے وزیرِ آباد کی جانب سفر جاری ہے۔ اس سے قبل مشتعل مظاہرین نے گکھڑ کے مقام پر بلدیہ کے دفتر میں املاک کو نقصان پہنچایا اور عمارت کا بیرونی دروازہ بھی توڑ دیا۔

'راستوں کی بندش سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے'

وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے احتجاج اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ مارچ کرنے والوں سے حکومت کے مذاکرات اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی جہاں بھی ہیں ان سے بات چیت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ راستے بند ہونے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، لہذا ٹی ایل پی کو اپنے احتجاج کے طریقۂ کار پر غور کرنا چاہیے۔ ان کے بقول مظاہرین سے ہونے والی جھڑپوں کے دوران اب تک چار پولیس اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں اور 80 کے قریب زخمی ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان ایک دو روز میں قوم سے خطاب کریں گے اور ان کی تقریر ہی حکومت کا بیانیہ ہو گا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ کے بقول، "حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے اور کوشش ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔ ممکن ہے کہ میرے اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کے ان سے مذاکرات ہوں لیکن ٹی ایل پی نے جو وعدے کیے تھے اس پر اب تک عمل نہیں ہوا۔"

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس لاٹھیوں اور آنسو گیس کے علاوہ کچھ نہیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت کی درخواست پر پولیس کو رینجرز کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی ساتویں مرتبہ اسلام آباد آ رہی ہے۔ ان سے اب جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں فرانسیسی سفیر کا معاملہ ان کا سرِ فہرست ایجنڈا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان میں تحریک لبیک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے والوں کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے لیکن کئی ٹوئٹس بھارت، جنوبی کوریا اور ہانگ کانگ سے چلائی جا رہی ہیں۔

اس سے قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک کارروائی کے دوران ٹی ایل پی کے 32 اراکین کو گرفتار کیا گیا ہے جو جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے نفرت انگیز پروپیگنڈا کر رہے تھے۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے خلاف بڑا ایکشن شروع کر دیا گیا ہے اور اس ضمن میں جلد مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔

واضح رہے کہ ٹی ایل پی کا مطالبہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو فوری طور پر ملک بدر کیا جائے جب کہ تحریک کے امیر سعد رضوی کو بھی رہا کیا جائے۔

اپنے مطالبات منوانے کے لیے ٹی ایل پی نے گزشتہ جمعے کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔ شرکا اور سیکیورٹی اہل کاروں کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئی اور اس دوران توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں کے واقعات بھی سامنے آئے۔

حکومت نے مارچ کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے جہلم پل پر کنٹینرز رکھ کر اسے آمد و رفت کے لیے بند کر دیا ہے جب کہ اسلام آباد میں بھی کئی مقامات کو اسی طرح بند کیا گیا ہے۔

ٹی ایل پی کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے حکومت نے ایک جانب جہاں کئی سیکیورٹی اقدامات کیے ہیں وہیں اس جماعت سے مذاکرات کرنے سے متعلق حکومت ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے جمعرات کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ جب تک ٹی ایل پی کے کارکنان سڑکیں خالی نہیں کرتے اور پولیس اہل کاروں کو قتل کرنے والے مجرموں کو اداروں کے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ لبیک کے زیرِ حراست سربراہ سعد رضوی سے فون پر بات کر چکے ہیں اور جمعے یا ہفتے کو ان سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔

البتہ شیخ رشید نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ٹی ایل پی کے مارچ کو روکنے اور ان سے مذاکرات کے بیان کو ایک مرتبہ پھر دہرایا۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کی جائے گی اور ٹی ایل پی کے مارچ کو ہر صورت روکا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹی ایل پی کے احتجاج کا کوئی جواز نہیں، ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔ اگر مظاہرین واپس اپنے مرکز چلے جائیں تو حکومت ان سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG