رسائی کے لنکس

عراق جنگ کی 'غلطیوں' پر ٹونی بلیئر کی معذرت


ٹونی بلیئر نے تسلیم کیا کہ عراق پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے نے داعش کے قیام سمیت ان بیشتر بحرانوں کو جنم دیا جن میں مشرقِ وسطیٰ اس وقت گھرا ہوا ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے 2003ء کی عراق جنگ کے دوران ہونے والی "غلطیوں" پر معافی مانگ لی ہے۔

ہفتے کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹونی بلیئر نے تسلیم کیا کہ عراق پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے نے شدت پسند تنظیم داعش کے قیام سمیت ان بیشتر بحرانوں کو جنم دیا جن میں مشرقِ وسطیٰ اس وقت گھرا ہوا ہے۔

سابق برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ 2003ء میں اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے والوں کو مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال سے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ حملے کی وجہ بننے والی وہ انٹیلی جنس اطلاعات خامیوں سے پر تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عراق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہا ہے۔

ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق جنگ کی منصوبہ بندی میں بھی خامیاں تھیں جب کہ اتحادی ممالک کی ایک بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ وہ اس صورتِ حال کا ادراک نہیں کرسکے تھے جو عراق میں صدام حسین کی حکومت کو گرانے کے بعد پیدا ہوئی۔

لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود وہ صدام حسین کی حکومت گرانے پر معافی نہیں مانگیں گے کیوں کہ آج 2015ء میں بھی یہ احساس کہ عراق میں ان کی حکومت موجود نہیں بہر حال ان کی موجودگی سے بہتر ہے۔

سنہ 2003 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں عراق پر حملے کے لیے بننے والے بین الاقوامی اتحاد میں برطانیہ عددی قوت کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک تھا۔

عراق جنگ میں امریکہ کے ڈیڑھ لاکھ جب کہ عراق کے 45 ہزار فوجی شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا، اسپین اور پولینڈ سمیت کئی نیٹو ممالک نے بھی مشن کے لیے ہزاروں فوجی عراق بھیجے تھے۔

صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق بدترین خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار ہوگیا تھا جو تاحال جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG