رسائی کے لنکس

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کتاب ،نئی بحث کا آغاز


سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کتاب ،نئی بحث کا آغاز
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کتاب ،نئی بحث کا آغاز

حال ہی میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی یاداشتوں پر مشمتل کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ ان کا عہد سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے برطانیہ اور یورپ کے لیے بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ انہیں اپنے دور اقتدار میں کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جن کاانہوں نے اپنی کتاب کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کی اشاعت سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔

ٹونی بلیئر کی کتاب’’ اے جرنی ۔ مائی پولیٹیکل لائف‘‘ کا تعارفی ٹور ان کی توقع کے مطابق نہیں جارہا ۔ گزشتہ ہفتے ڈبلن میں جنگ مخالف مظاہرین نے عراق جنگ میں سابق برطانوی وزیر اعظم کے کردار پر ان کو انڈوں اور جوتوں سے خراج پیش کیا ، جنہیں سات سال بعد بھی اپنے عالمی کردار پر کوئی پشیمانی نہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسےہوسکتا ہے کہ آپ کو جنگ میں ہلاک ہونےو الوں کا کوئی افسوس نہ ہو ؟ اگر آپ ایسا نہیں سوچتے تو آپ انسان ہی نہیں ۔ لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس ہے تو میں کہوں گا کہ میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور مجھے اس پر افسوس نہیں۔

کتاب کی تعارفی تقریبات پر مزید احتجاج کے پیش نظر ٹونی بلیئر نے لندن میں کتاب پر دستخط کی ایک تقریب منسوخ کر دی ۔ کیونکہ جس روز یہ تقریب ہونی تھی ، احتجاج کرنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ لندن میں ٹونی بلیئر کو پسند کرنے والے زیادہ نہیں ہیں ۔

انتھونی سیلڈن سابق برطانوی وزیر اعظم پر دو کتابیں لکھ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ٹونی بلیئر کو عراق جنگ کے حوالے سے برطانوی عوام کی برہمی پر حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں انہیں کچھ مایوسی تو ہوگی مگر شاید وہ سوچ رہے تھے کہ کتاب عراق جنگ کے حوالے سے عوام کے غصے کو ٹھنڈا کر دے گی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم انہیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہوگی۔

ٹونی بلیئر اپنی کتاب کی فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی ایک فوجی خیراتی ادارے کو دے رہے ہیں ۔ جس میں کئی لاکھ ڈالر پیشگی دیئے جا چکے ہیں اور باوجودیکہ اس کی اشاعت سے عراق جنگ کے حوالے سےبحث کو دوبارہ زندہ ہوگئی ہے ، یہ کتاب اپنی فروخت کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔

ٹونی بلیئرکا ذکر برطانیہ کی تاریخ میں صرف عراق جنگ کے حوالے سے ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ تقریبا دس سال تک برطانیہ کی قیادت کرتے رہے ، اور اس میں شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد برطانیہ کو سنبھالا دینے اور شمالی آئر لینڈ میں قائم امن کی کوشش کرنے میں بھی ان کا کردارتھا ۔

اس وقت بلییر یورپی یونین ، امریکہ ، اقوام متحدہ اور روس کی طرف سے میں مشرق وسطی کے خصوصی مندوب ہیں ۔

سیلڈن کہتے ہیں کہ ٹونی بلیئر عام لوگوں سے کافی قریب تھے ۔ لیکن ان کے نقادوں نے انہیں صدر بش کا ساتھی قرار دیا اور اب انہیں برطانیہ سے زیادہ برطانیہ سے باہر پسند کیا جاتا ہے ۔ریٹائرڈ میجر جنرل ٹم کراس جو عراق پر حملے کے بعد عراق میں برطانیہ کے سینئیر نمائندے تھے ، کہتے ہیں کہ ٹونی بلیئر نے عراق میں جو کیا ٹھیک کیا ۔

عراق حملے کے سات سال بعد تک صورتحال چونکہ آزمائشی دور سے گزر رہی ہے ، اس لئے شاید اس کا انحصار اس بات پر ہو کہ عراق کا مستقبل کتنا مستحکم ثابت ہوتا ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کو ٹونی بلیئر کا ایران کے بارے میں طرز گفتگو بھی تشویش میں مبتلا کر رہا ہے ۔

بعض لوگوں کے نزدیک ٹونی بلیئر ایک جنگی مجرم ہیں اور بعض کے نزدیک عظیم برطانوی راہنما ۔ کتاب پڑھنے والوں کا کہنا ہےکہ ٹونی بلیئر کتاب میں کوئی نئی بات نہیں کر رہے، نہ ہی اس کا خشک طرز تحریر عام آدمی کو کتاب پڑھنے پر آمادہ کر سکتا ہے ۔ مگر جیسے دیگر عالمی راہنماؤں کی کتابیں لائیبریریوں کی زینت بن کر عالمی امور کے طلبا کو ٹھوس حوالے فراہم کرنے میں مدد کرتی ہیں ، اے جرنی ، مائی پولیٹیکل لائف بھی انہی میں ایک اور اضافہ ثابت ہوگی ۔

XS
SM
MD
LG