رسائی کے لنکس

مک کرسٹل کی سبکدوشی افسوسناک مگر درست اقدام ہے: صدر اوباما


یہاں واشنگٹن میں ایک روزسےزیادہ کےسسپنس کے بعد، صدر براک اوباما نے بدھ کواعلان کیا کہ اُنھوں نے مک کرسٹل کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ اُنھوں نے انتہائی افسوس کے ساتھ ایسا کیا ہے‘ تاہم، اِس کے ساتھ ساتھ، اِس بارے میں یقین کے ساتھ کہ یہ افغانستان میں ہمارے مشن، ہماری فوج اور ہمارے ملک کے لیےدرست اقدام ہے۔’

مسٹر اوباما نے مک کرسٹل کو افغانستان سے واشنگٹن واپس آنے کا حکم جریدے‘ رولنگ اسٹون’ میں شائع ہونے والے کمانڈر اور اُن کے عملے کے متعدد بیانات کی وضاحت کرنے کے لیے دیا تھا جِس میں اُن کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اُنھوں نے دیگر افراد کے علاوہ نائب صدر جو بائیڈن، قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز اور افغانستان کے لیے امریکی سفیر کارل اکینبیری کا تمسخر اُڑایا ہے۔نہ تو مک کرسٹل نے اور نہ ہی اُن کے مشیروں میں سے کسی نے اِس خبر میں اپنے نام سے دیے جانے والے حوالوں پر کوئی سوال اُٹھایا ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ کمانڈر کو برطرف کردینا درست فیصلہ ہے۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ حال ہی میں شائع ہونے والا مضمون جِس طرزِ عمل کا مظہر ہے وہ اُس معیار پر پورا نہیں اُترتا جو ایک کمانڈنگ جنرل کو پیش کرنا چاہیئے۔ ‘یہ فوج پر سولین کنٹرول کو نقصان پہنچاتا ہے جو ہمارے جمہوری نظام کا مرکز ہے اور یہ اُس اعتماد کی بیخ کُنی کرتا ہے جو افغانستان میں ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے ہماری ٹیم کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے لازمی ہے۔

صدر نے مزید کہا کہ وہ مک کرسٹل کی جگہ فوج کے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان میں امریکہ کا چوٹی کا کمانڈر نامزد کر رہے ہیں۔

مسٹر اوباما نے امریکیوں اور اتحادیوں کو یقین دلایا کہ جنرل پیٹریاس کو لانا محض عملے میں تبدیلی کا غماز ہے، پالیسی میں کسی تبدیلی کا نہیں۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس وقت جو حکمتِ عملی کارفرما ہے، جنرل پیٹریاس نے اُسے ڈزائن کرنے میں ہماری حمایت اور مدد دونوں کی تھیں۔ ‘سینٹرل کمانڈ میں اپنے موجودہ عہدے میں اُنھوں نے افغانستان میں ہماری افواج کے ساتھ بہت قریبی طور پر کام کیا ہے۔ اُنھوں نے کانگریس کے ساتھ، افغانستان اور پاکستانی حکومتوں کے ساتھ اور خطے میں ہمارے تمام شراکت داروں کے ساتھ قریبی طور پر کام کیا ہے۔’

افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور دیگر چوٹی کے افغان عہدے داروں نے مک کرسٹل پر اعتماد کا اظہار کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ اُنھیں ہٹایا نہیں جائے گا۔

یہ تنازع ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے جب اتحادی افواج مہینوں سے مرجاہ نامی قصبے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور وہ صوبہٴ قندھار میں حملے کی تیاری کر رہی ہیں۔

اِس سے اوباما انتظامیہ کے اندر عدم ِاتفاق کے اُس سلسلے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے جو افغانستان میں پیش رفت سے متعلق ہے۔

صدر نے کہا کہ یہ تکرار ختم کرنے کا وقت ہے۔

صدر کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے ابھی ابھی اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو بتایا ہے کہ یہ ہم سب کےلیے مل کر کام کرنے کا وقت ہے۔ ایسا کرنا کوئی انتخاب نہیں ہے بلکہ ایک فرض ہے۔ ‘میں اپنی ٹیم کے درمیان مباحثے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ تاہم، میں تفریق کو برداشت نہیں کروں گا۔’

جنرل پیٹریاس کی نامزدگی کی توثیق سینیٹ کو کرنی ہوگی۔ مسٹر اوباما نے قانون سازوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد اُن کے نام کی توثیق کردیں، جِن کی قیادت، مسٹر اوباما کے الفاظ میں، ‘ اِس لیڈرشپ اور حرکت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے گی جس کی امریکہ کو کامیابی کے لیے ضرورت ہے۔’

ایوانِ نمائندگا ن کی مسلح افواج کی کمیٹی کے چیرمین نے فوری طور پر جنرل پیٹریاس کو بہترین کہہ کر اُن کی تعریف کی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ مک کرسٹل کے کسی بیان نے اُنھیں پریشانی میں مبتلا کیا ہو۔ صدر اوباما نے گذشتہ برس جنرل پر کھلے عام اُس مہم چلانے کے لیے تنقید کی تھی جو افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافے کے لیے تھی۔

XS
SM
MD
LG