رسائی کے لنکس

کراچی ایئرپورٹ پر ٹرانس جینڈر کو 'ایکس کارڈ' ہونے پر سفر سے روک دیا گیا


 شہزادی رائے
شہزادی رائے

''مقصد یادوں کے ساتھ مرناہے۔ خوابوں کے ساتھ نہیں'' کراچی ایئرپورٹ پر اپنی تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر یہ لکھتے وقت شہزادی رائے کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر میں ان کا یہ سفر ہمیشہ کےلیے ایک بھیانک یاد بن جائے گا۔ پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق کے لیے مضبوط آواز سمجھی جانےوالی شہزادی رائے کو اس وقت تکلیف پہنچی جب انہیں براستہ دبئی نیپال کے سفر سے روک دیا گیا۔

ٹرانس جینڈر حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم 'جینڈر انٹرایکٹو الائنس' سے وابستہ شہزادی رائے اسی تنظیم سے وابستہ اپنی ساتھی کے ساتھ ایک کانفرنس کے سلسلے میں نیپال جا رہی تھیں۔

اُن کے بقول 20 جنوری کی صبح جب وہ کراچی ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کلیئر کرکے 'فلائی دبئی' ایئرلائن کے چیک ان کاؤنٹر پہنچیں تو انہیں کراچی سے دبئی کا بورڈنگ پاس تو فوری دے دیا گیا۔ مگر اسی ایئرپورٹ سے دبئی سے نیپال کی فلائٹ کے بورڈنگ پاس کے لیے انہیں ایک کونے میں انتظار کرنے کا کہہ دیا گیا۔

اس دوران ایئرلائن کا عملہ دوسرے مسافروں کے ساتھ مصروف ہوگیا۔ شہزادی رائے کے مطابق ایک ایک کرکے کاؤنٹر تمام مسافروں سے خالی ہوگیا اور سوائے ایک افسر کے فلائی دبئی کا عملہ بھی چلا گیا۔

شہزادی رائے کے بقول کچھ دیر بعد وہی افسر ان کے پاس آیا اور ان سے کراچی سے دبئی کا بورڈ نگ پاس دکھانے کا کہا جس کے بعد افسر نے وہ بورڈنگ پاس لے کر پھاڑ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ افسر نے انہیں کہا کہ ''ایکس کارڈ'' والوں کو دبئی کے سفر کی اجازت نہیں خواہ وہ ٹرانزٹ مسافر ہی کیوں نا ہوں۔

اطلاعات کے مطابق اسی کانفرنس کے لیے لاہور ایئرپورٹ پر ایک ٹرانس جینڈر کارکن کو قطر ایئرویز کی پرواز پر سفر کرنےسے بھی روکا گیا ہے۔

شہزادی کے بقول جب انہوں نے افسر سے یہ سب تحریری طور پر لکھ کر دینے کے لیے کہا تو افسر نے انہیں جواب دیا کہ پہلے ہی ان کی وجہ سے وہ لیٹ ہو چکے ہیں۔ اسی دوران وہاں ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے اہلکار آگئے اور انہیں باہر جانے کا کہنے لگے جبکہ اسی اثنا میں فلائٹ چلی گئی۔

شہزادی رائے کا کہنا تھا کہ جب وہ اس بات پر ڈٹی رہیں کہ انہیں وجہ تحریری طور پر دی جائے تو ان سے کہا گیا کہ آپ ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر کی جانب فلائی دبئی کے دفتر جائیں۔

اُن کے بقول جب وہ ایئرپورٹ سے باہر آئیں تو کہا گیا کہ دفتر تو عمارت کے اندر ہے جس کے بعد دروازے پر کھڑے سیکیورٹی عملے نے انہیں دوبارہ اندر داخل نہیں ہونے دیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شہزادی رائے کا کہنا تھا کہ عمارت کے اندر انتظار اور 'تضحیک' کے عمل کے بعد باہر وہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگاتی رہیں۔

ان کے بقول''مجھ سے کہا گیا کہ سول ایوی ایشن کے دفتر جائیں جو چھٹے فلور پر ہے۔ میں وہاں گئی تو کہا گیا کہ دفتر تیسرے فلور پر ہے جب وہاں پہنچی تو کہا کہ دوسرے فلور پر جائیں۔ وہاں کام نہیں بنا تو میں (ایمریٹس اور فلائی دبئی کے آپریشنز کے دفتر) جیریز کگئی تو انہیں وہاں سے بھی کسی اور دفتر بھیج دیا گیا۔پھر وہاں پر مجھے کہا گیا کہ ہم صرف ریزرویشنز لیتے ہیں آپ واپس جائیں۔''

شہزادی کا کہنا تھا کہ وہ جیریز کے دفتر میں ایک گھنٹہ کھڑی رہیں جس کے بعد ان سے کہا گیا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔

دوسری جانب وائس آف امریکہ کی جانب سے فلائی دبئی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس واقعے سے متعلق ردِعمل لینے کی کوشش کی گئی۔ تاحال خبر کی اشاعت تک ان کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

شہزادی کے بقول اس کے بعد وہ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس(اے ایس ایف) کے دفتر گئیں تاکہ یہ شکایت کرسکیں کہ انہیں دوبارہ عمارت کے اندر کیوں جانے نہیں دیا جا رہا کیوں کہ وہ جواب دہی چاہتی ہیں۔ لیکن شہزادی کے بقول وہاں انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک افسر نے ان سے کہا کہ وہ حال ہی میں لاہور سے یہاں منتقل ہوئے ہیں اور کیا شہزادی انہیں کراچی گھمائیں گی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اس دوران ایک اور افسر نے انہیں اپنے نمبر پر زبردستی مسڈ کال دینے پر مجبور کیا اور ان سے کہا کہ ایئرپورٹ کے سامنے ریستوران میں بیٹھ جائیں، وہ وہاں آکر ان سے ملاقات کریں گے۔شہزادی کے بقول انہیں افسر کی گفتگو اور باڈی لینگوئج مناسب نہیں لگی جس کے بعد وہ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد خاموشی سے وہاں سے ٹیکسی لے کر چلی گئیں۔

شہزادی کا کہنا تھا کہ بعد ازاں اس افسر کی جانب سے انہیں ''بات تو سن''، ''کدھر ہو'' کے میسجز بھیجے گئے اور کال کی گئیں۔ اور جب کال اٹھائی تو افسر نے معاملے کا کیا بنا پوچھنے کے بعد پوچھا کہ ''شام میں کیا کر رہی ہو؟'' جس پر انہوں نے فون منقطع کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب انہیں ایئرپورٹ سیکیورٹی کے عملے کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل جب ایک مرتبہ وہ اسلام آباد سے کراچی آ رہی تھیں تو ایک افسر نے ان کے شناختی کارڈ پر 'ایکس' لکھا دیکھ کر کہا تھا کہ وہ ان کی جامہ تلاشی خود لے گا۔

شہزادی کے بقول جب انہوں نے شور مچایا اور تحریری شکایت درج کرانے کے لیے اصرار کیا تو ان سے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے کہا گیا اور افسر سے زبانی معافی مانگنے کا کہا گیا۔

ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شہزادی رائے کے ان الزامات پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

ادھر انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں ابوظہبی پولیس نے سنگاپور کے شہری اور فیشن فوٹو گرافر محمد فاضلی عبدالرحمان اور ان کی ساتھی قسطینہ ابراہیم جو ٹرانس جیںڈر ماڈل ہیں کو ایک شاپنگ مال سے حراست میں لیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق فاضلی عبدالرحمان نے گردن میں چین پہنی ہوئی تھی اور ان کا ایک کان اور ناک چھدی ہوئی تھی۔

بعدازاں ان دونوں پر مرد ہو کر خواتین جیسا حلیہ رکھنے کی فرد جرم عائد کی گئی جس پر عدالت نے انہیں ایک سال قید کی سزا سنائی۔ تاہم انہیں تین ہفتے بعد ڈی پورٹ کر دیا گیا۔

ٹرانس جینڈر حقوق اور قوانین کی میپنگ والے ادارے

انٹرنیشنل لیز بین، گے، بائی سیکشوئل، ٹرانس اینڈ انٹرسیکس ایسوسی ایشن(آئی ایل جی اے)متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو ریڈ زون شمار کرتی ہے یعنی وہ ممالک جہاں صنفی شناخت، صنفی تنوع سول سوسائٹی آرگنائزیشن کی بنیاد رکھنا یا آزادی اظہار میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے امور پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کے مطابق مخنث افراد کے ملک میں داخلے یا ٹرانزٹ پر ممانعت کسی باقاعدہ قانون کا حصہ نہیں بلکہ یہ غیر رسمی پابندی ہے جس پر باقاعدگی سے عمل ہوتا ہے۔ اس میں ہم جنس پرست افراد تو اپنی جنس واضح درج ہونے کی صورت میں پابندی سے بچ نکلتے ہیں مگر وہ افراد جن کے پاسپورٹ پر ان کی جنس واضح طور پر 'ایکس' لکھی ہو وہ اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

ایل جی بی ٹی کمیونٹی پر مشترکہ تعاون سے معلومات شائع کرنے والے انسانی برابری کے انڈیکس'ایکولڈکس' کے مطابق یو اے ای میں نان بائنری یعنی مرد اور عورت کے علاوہ کسی اور صنف کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ وہاں ہم جنسیت غیر قانونی ہے۔ صنف تبدیل کرانے کی اجازت نہیں، ایل جی بی ٹی کمیونٹی کو صنف کی بنیاد پرکسی بھی قسم کی تفریق پر قانونی تحفظ حاصل نہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں دبئی میں منعقدہ ایکسپو 2020 کے ایک ایونٹ میں پرفارمنس کے لیے پہنچنے والی ٹرانس جینڈر ماڈل رچایا نوپاکرون نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا تھا کہ جب وہ اپنی 14 رکنی ٹیم کے ساتھ امیگریشن ڈیسک پر پہنچیں تو انہیں ان کے زنانہ حلیے لیکن پاسپورٹ پر درج شناخت بطور مرد دیکھنے پر امیگریشن افسر نے روک لیا جس کے بعد انہیں کئی گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد ڈی پورٹ کردیا گیا۔

XS
SM
MD
LG