رسائی کے لنکس

پشاور کا گلریز جسے 'ٹرک آرٹ' کراچی کھینچ لایا


'میں بچپن میں جب بھی ڈرائنگ کرتا یہی سوچتا تھا کہ کچھ ایسا بناؤں جو عام نہ ہو، سڑکوں پر رواں دواں ٹرک اور ان پر بنی رنگین پھول پتیاں اور جانور مجھے شروع سے ہی جاذب نظر لگتے تھے تب ہی دل میں ٹھان لی کہ یہی کام کرنا ہے۔'

یہ کہنا ہے پچیس سالہ گلریز آفریدی کا جو ٹرک آرٹسٹ ہیں اور بھارتی کھلاڑی ویرات کوہلی سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سبب ان کے اکثر دوست انھیں کوہلی پکارتے ہیں۔

گلریز نے رنگوں کو زبان دینے کے لیے جو امنگ اپنے دل میں جگائی تھی اسے اس وقت تکمیل کا موقع ملا جب ایک ٹرک کے پیچھے شاہکار بنانے والے آرٹسٹ کا نام اور نمبر لکھا نظر آیا۔ گلریز نے جھٹ سے اس نمبر پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ وہ یہ ہنر کس طرح سیکھ سکتے ہیں؟

حیدر علی جنھوں نے گلریز سے بات کی انھوں نے گلریز سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں تو گلریز نے بتایا کہ وہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے رہائشی ہیں۔

لیکن حیدر علی تو کراچی میں تھے یہ سنتے ہی اس نوجوان نے جس کی عمر اس وقت محض تیرہ سے چودہ برس ہو گی حامی بھر لی کہ وہ کراچی آ کر یہ کام سیکھ لیں گے۔ یوں رنگوں سے عشق کی داستاں یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے گلریز آفریدی نے بتایا کہ جب انھوں نے اپنے والدین کو بتایا کہ وہ ٹرک آرٹ سیکھنے کی غرض سے کراچی جانا چاہتے ہیں تو ان کی والدہ نے اعتراض اٹھایا کہ اس کام میں جانداروں کی تصاویر بنتی ہیں جو اسلام کے منافی ہے۔ لیکن گلریز بھی دھن کے پکے تھے انھوں نے اپنی والدہ کو آخر کار منا ہی لیا لیکن والد کافی عرصہ تک ان سے خفا رہے۔

پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں گلریز تیسرے نمبر پر ہیں، عمر بھی کم تھی لیکن یہ کام سیکھنے کے لیے وہ استاد حیدر علی کے پاس تن تنہا آئے اور اب انھیں یہ کام کرتے ہوئے دس سے بارہ برس ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی اب ان کے ساتھ کراچی میں ہی رہتے ہیں۔

کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں وہ شروع سے ہی ٹرکوں اور بسوں کو پھول پتیوں اور منفرد نقش و نگار سے مزین کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ گلریز کہتے ہیں کہ اس شوق اور کام نے ان کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

ان کے بقول 'جب یہ کام سیکھ رہا تھا تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہاں تک پہنچ جاؤں گا یا دوسروں کو بھی یہ کام سیکھا سکوں گا، لیکن آج انڈس ویلی سمیت مختلف اداروں میں ٹرک آرٹ دیگر نوجوانوں کو بھی سیکھا رہا ہوں، کام کی وجہ سے لوگ میری عزت کرتے ہیں۔'

گلریز کہتے ہیں کہ اس کام کو جب دیکھتا تھا تو آسان لگتا تھا لیکن جب سیکھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کتنا محنت اور وقت طلب کام ہے۔ اس میں عام رنگ نہیں صرف آئل کلرز کا استعمال ہوتا ہے اور یہ رنگ اپنی پائیداری کے سبب تین سے پانچ سال کا عرصہ گزار لیتے ہیں۔

گلریز نے بتایا کہ وہ اب تک لگ بھگ تین ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ٹرکوں پر کام کر چکے ہیں۔ ٹرک اگر چھوٹا ہو تو اسے تیار کرنے میں انھیں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے اگر بہت بڑا ہو تو دو سے تین ہفتے بھی لگ جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس کام کو کرنے کا جہاں انھیں شوق ہے وہیں یہ کام کروانے والے بھی کچھ کم شوقین نہیں، چاہے وہ میانوالی کے رہنے والے ہوں یا بلوچ، پٹھان سب ہی اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کی گاڑی کسی بھی طور پر کم نہ لگے۔ اس شان و شوکت کے لیے وہ پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔

ایک بڑے ٹرک یا ڈمپر کے پینٹ پر تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آتی ہے جب کہ بسوں میں ایک لاکھ کے اندر کام ہو جاتا ہے۔ یہ کام کروانے والے گاڑیوں کے مالک کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ جب ان کی گاڑیاں دیگر گاڑیوں کے ساتھ کھڑی ہوں تو تزئین و آرائش اور خوبصورتی کے سبب نمایاں دکھائی دیں۔

گلریز کا کہنا ہے کہ یہ آرٹ خالصتاً پاکستان کا ہے اور اس کی پذیرائی اب دنیا بھر میں ہو رہی ہے خاص کر یورپی ممالک میں اس کام کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب سے اس کام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے ملک میں بھی نوجوانوں نے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کو سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ یہ سیکھ کر اسے دیگر اشیاء جن میں ڈیکوریشن پیسز، جوتے، جیولری، پرس وغیرہ شامل ہیں ان پر اس آرٹ کو کر کے مزید فروغ دے رہے ہیں۔

​گلریز کا کہنا ہے کہ جب وہ یہ کام سیکھنے گھر سے نکلے تھے تب ان کے پیارے جہاں ان کی اس خواہش پر ناخوش تھے وہیں مالی دشواریاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ لیکن ان کی محنت اور لگن کے بعد سے انھیں نہ صرف اس کام سے عزت ملی بلکہ مالی استحکام بھی ملا۔ آج ان کے گھر اور خاندان والے نہ صرف ان سے خوش ہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔

وہ اب ٹرک آرٹ کے گروپ ''پھول پتی'' سے وابستہ ہو کر شہر کے بہترین ٹرک آرٹسٹ تو بن ہی گئے ہیں ساتھ ہی اب دوسروں کو بھی یہ ہنر سیکھا رہے ہیں جس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں تاہم اگر کوئی ایسا نوجوان جو سیکھنے کی لگن رکھتا ہو لیکن اس شوق کی تکمیل کے لیے اخراجات کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو اسے یہ کام مفت سیکھایا جاتا ہے۔

گلریز کا کہنا ہے کہ انھیں اس کام سے جو پذیرائی اور عزت ملی ہے مستقبل میں وہ یہ ہنر اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا چاہیں گے۔

XS
SM
MD
LG