رسائی کے لنکس

صدارتی خطاب کی کاپی پھاڑ کر پیلوسی نے غیر قانونی عمل کیا: ٹرمپ


اسپیکر پیلوسی صدر ٹرمپ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی کاپی پھاڑتے ہوئے (فائل)
اسپیکر پیلوسی صدر ٹرمپ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی کاپی پھاڑتے ہوئے (فائل)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ملکی قانون ساز ادارے کی ایک اعلیٰ ترین رکن، اور ایوان نمائندگان کی اسپیکر، نینسی پیلوسی نے کانگریس کے ایوان میں دیے جانے والے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے متن کی کاپی پھاڑ کر، ’’قانون توڑا‘‘ ہے۔

صدر نے جمعے کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ منگل کی رات جب انھوں نے اپنا خطاب مکمل کیا، پیلوسی نے یہ حرکت کی جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ یہ بات ’’ملک کی بے عزتی کے مترادف تھی، دراصل یہ انتہائی غیر قانونی بات تھی‘‘۔

ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی کے فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن، میٹ گائٹز نے پیلوسی کے خلاف اخلاقیات کی کمیٹی میں شکایت درج کرائی ہے، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ’’انھوں نے ممکنہ طور پر وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘ اس ضمن میں، انھوں نے آئین کی شق 18 کے کوڈ 2071 کا حوالہ دیا ہے۔

ملکی قانون سرکاری ریکارڈ کو ضائع کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ لیکن، یہ دستاویز کے معاملے پر لاگو ہوتا ہے، ’’جو امریکہ کی کسی عدالت کے کسی کلرک یا اہل کار کو پیش کیے گئے ہوں یا جمع کرائے گئے ہوں‘‘۔

امریکی بار فاؤنڈیشن میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور تحقیق کے پروفیسر، اجے ملہوترا نے کہا ہے کہ ’’یہی وہ قانون ہے جو دستاویزات کا تحفظ یقینی بناتا ہے، جیسا کہ سرکاری نقل جو نیشنل آرکائیوز کا حصہ بنتا ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ پیلوسی کے پاس جو نقل تھی اسے سرکاری دستاویز کا درجہ حاصل ہے‘‘۔

ملہوترا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹرمپ کی ایک حریف کی جانب سے مذاق اڑانے کا یہ لمحہ ’’شاندار سیاسی تھیٹر‘‘ تو ضرور کہلائے گا، لیکن کسی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔

لیکن دوسرے حضرات اسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی کوئی سرکاری نقل نہ بھی ہو، پھر بھی تکنیکی طور پر یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ایرون کولمن ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کنیٹیکٹ میں کمبرلینڈز یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ اور علم سیاست کے سربراہ ہیں۔ بقول ان کے ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ’’جائز سوال ہے’’۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر ٹرمپ اسے ایک قانونی معاملہ بنا کر پیش کریں جس میں یہ کہا جائے کہ یہ امریکی صدر کی تقریر کا معاملہ تھا۔ لیکن، کولمن نے کہا کہ ’’جب معاملہ قانونی ہونے کا ہو تو یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب باقی اصل معاملات کو سامنے رکھا جائے تو یہ اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں۔ ایک معاملہ جس کا تعلق صدر اور کانگریس سے ہو، اس پر ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا‘‘۔

قانونی مضمرات کو ایک طرف رکھ کر، علم سیاست کے پروفیسر نے کہا کہ ’’جو انھوں نے کیا وہ بے سود اور بیکار‘‘ بات ہے۔

گزشتہ سال جب ڈیموکریٹ پارٹی کی اکثریت والے امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے ٹرمپ کو مواخذے سے دوچار کرنے کا معاملہ سامنے آیا، تب سے ٹرمپ اور ڈیموکریٹ قانون سازوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

بدھ کو ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت والی سینیٹ نے ٹرمپ کے خلاف عائد دونوں الزامات کو مسترد کیا۔ صدر کو ہٹانے کے لیے دو تہائی ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG