پیر کو دنیا بھر کے اخبارات اور سوشل میڈیا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری دورے پر لندن آمد کی خبر میں جو نمایاں سرخی لگائی گئی وہ تھی ’ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کا آغاز لندن کے میئر کی توہین سے کیا‘۔ پاکستانی نژاد میئر صادق خان اور امریکہ کے صدر کی چپقلش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اس اہم دورے سے پہلے آخر ایسا کیا ہوا تھا، جو اس ٹوئٹ کی وجہ بنا؟
در اصل ایک روز پہلے صادق خان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ 1930 یا 1940 کی دہائی کے کسی یورپی ڈکٹیٹر کی بات نہیں ہے۔ یہ ہمارے قریب ترین اتحادی کے لیڈر کے اقدامات ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے‘۔
انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ آنے والے برسوں میں ہم اس سرکاری دورے کو انتہائی تاسف کے ساتھ یاد کریں گے کہ ’ہم تاریخ میں غلط جانب تھے‘۔
صادق خان کے اس آرٹیکل کی سرخی تھی’ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سرخ قالین بچھانا، برطانوی روایت کے منافی ہے‘۔
صدر ٹرمپ نے اس پر اپنے رد عمل میں لندن لینڈ کرنے سے پہلے ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ’ لندن کے میئر کی حیثیت سے ، ہر طور سے صدیق خان کی کارکردگی بدترین رہی ہے ۔ اور وہ ایک احمقانہ طریقے سے دورہ کرنے والے امریکہ کے صدر کو یہ سخت و سست باتیں کہ رہے ہیں، جو اب تک بر طانیہ کا سب سے اہم اتحادی ہے۔ انہیں مجھ پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے، لندن میں ہونے والے جرائم پر توجہ دینی چاہئے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’صادق خان مجھے خود ہمارے، نیو یارک کے انتہائی احمق اور نااہل میئر، ڈی بلا ژیو، کی یاد دلاتے ہیں۔ انہوں نے بھی انتہائی خراب طریقے سے اپنا کام سر انجام دیا تھا۔ صرف قد میں وہ (صادق خان) ان سے آدھے ہیں‘۔
یاد رہے کہ نیویارک کے سابق میئر بلاژیو ابھی حال ہی میں امریکہ کے 2020 کے صدارتی مقا بلے کی دوڑ میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کا قد ساڑھے چھ فٹ ہے۔
بہرحال بلاژیو نے بھی اپنی جوابی ٹوئٹ میں صدر کو ’کان ڈون‘ کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انہوں نے ایک بار پھر مجھ پر وار کیا ہے۔ لیکن میں مکمل طور پر صادق خان کے موقف کی تائید کرتا ہوں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے موازنے کو ستائش سے تعبیر کرتا ہوں‘۔
یہ تو بات تھی ٹوئٹس کی۔ ٹرمپ برطانیہ میں میں ایک متنازع شخصیت ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی عوام کی اکثریت انہیں پسند نہیں کرتی۔ ہماری ایک نامہ نگار نے جب کچھ لندن والوں سے بات کی تو ایک بزرگ ٹیڈ نے ہنستے ہو ئے کہا، ’میرے خیال میں ان کے بارے میں ہر چیز عجیب و غریب ہے اور وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ وہ شریر ہیں‘۔
ایک اور نوجون خاتون ہانا کہتی ہیں، ’مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی طرح کا رویہ رکھنے والے صدر کو، جس طرح وہ بات کرتے ہیں، کس طرح سیاست میں آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مضحکہ خیز ہے‘۔
اور جیمز کا کہنا ہے کہ ’یہ خاصی اہم بات ہے کہ وہ یہاں امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات کے لیے آ رہے ہیں۔ لیکن سیدھی سادی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے بہترین تعلقات موجود ہیں‘۔
اگر دونوں ملکوں کے خصوصی تعلقات کی بات کی جائے تو رائے عامہ کے جائزوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی رشتہ مستحکم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ برسراقتدار کون ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں جدید تاریخ میں یہ ان چند تعلقات میں سے ایک ہے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اچھے اور برے وقتوں کے ساجھے دار ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت کے برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے دو طرفہ سیاسی، ثقافتی، اقتصادی، فوجی اور تاریخی رشتوں کو بیان کرنے کے لیے’ خصوصی تعلقات‘ کی اصطلاح وضع کی تھی۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ’دونوں ملکوں کی شراکت داری‘ لگتا ہے کہ ان خصوصی تعلقات کو قائم رکھے گی اور امریکہ کے سربراہ کے لیے سرخ قالین بچھانے کے تسلسل کو بھی۔