امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر جمعرات کے روز سیکیورٹی أمور پر بات چیت کی۔ اس گفتگو سے چند گھنٹے پہلے أفغانستان کے لیے امریکی کمانڈر نے کہا تھا کہ انہیں طالبان کے خلاف جنگ میں اپنا پلڑا بھاری رکھنے کے لیے مزید چند ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے۔
وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اور أفغان صدر أشرف غنی نے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے، دهشت گردی کی روک تھام اور اقتصادی ترقی کے موضوعات پر گفتگو کی۔
بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے امریکہ اور أفغانستان کے درمیان جاری اسٹریٹیجک شراکت داری اور غنی کے حکومت کے لیے امریکی حمایت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
أفغان حکومت کو طالبان شورش کا سامنا ہے جو 15 سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں ابھی تک زمینی کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔
واشنگٹن میں أفغان سفارت خانے نے کہا ہے کہ اس سے قبل مسٹر ٹرمپ اور أشرف غنی کے درمیان 3 دسمبر کو ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تھی لیکن 20 جنوری کو صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد یہ دونوں راہنماؤں کے درمیان پہلا ٹیلی فونک رابطہ تھا۔
دونوں صدور کی بات چیت سے چند گھنٹے پہلے أفغانستان میں تعینات بین الاقوامی فورسز کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے واشنگٹن میں سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ان کے پاس أفغان فورسز کی مناسب مشاورت اور تربیت کے لیے کافی فوجی موجود نہیں ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ہمارے پاس چند ہزار فوجیوں کی کمی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا وہ أفغانستان کے لیے مزید چند ہزار فوجیوں کی منظوری دیں گے۔
اس وقت أفغانستان میں امریکہ کے تقریباً 8400 فوجی موجود ہیں جب کہ 2011 میں یہ تعداد تقربیاً ایک لاکھ تھی۔
جنرل نکولسن نے أفغانستان کی سیکیورٹی کے پس منظر میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مشکلات کا بھی ذکر کیا جس کا تعلق طویل عرصے سے پائے جانے والے اس تصور سے ہے کہ پاکستان میں طالبان شورش پسندوں، حقانی نیٹ ورک اور دوسرے اسلامی عسکریت پسند گروپوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلقات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔
واشنگٹن میں أفغان سفارت خانے نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی فون کال میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ جلد صدر غنی سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔