رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کے ناقدین کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کا عندیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے یہ الزام بھی لگایا کہ جن افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے پر غور کیا جارہا ہے وہ "خود کو حاصل سکیورٹی کلیئرنس کو سیاست کے لیے استعمال کرنے اور بعض معاملات میں اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے" میں ملوث ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات پر تنقید کرنے والے چھ سابق اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ اپنے پیش رو براک اوباما کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر رہنے والے چھ سابق انٹیلی جنس اور سکیورٹی حکام کی کلیئرنس ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

ان افراد میں سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن، ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی، نیشنل انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر جیمز کلیپر، نیشنل سکیورٹی ایجنسی اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور ایئر فورس کے ریٹائرڈ جنرل مائیکل ہیڈن، صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس اور ایف بی آئی کے سابق نائب سربراہ اینڈریو مکابی شامل ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا یہ بیان ر ی پبلکن سینیٹر رینڈ پال کی اس ٹوئٹ کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ جان برینن کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرانے کے لیے صدر ٹرمپ سے بات کریں گے۔

جان برینن جو صدر اوباما کے دور میں سی آئی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
جان برینن جو صدر اوباما کے دور میں سی آئی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔

جان برینن نے گزشتہ ہفتے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں روسی صدر کے ساتھ ہونے والی سربراہی ملاقات میں صدر ٹرمپ کی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ "ٹرمپ پوٹن کی جیب میں ہیں۔"

سی آئی اے کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ انٹیلی جنس افسران کو حاصل سکیورٹی کلیئرنس عموماً ان کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے تاکہ وہ اپنے پیش رووں کو مشاورت فراہم کرتے رہیں۔اس مقصد کے لیے انہیں بعض حساس معلومات تک رسائی بھی دی جاتی ہے۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے یہ الزام بھی لگایا کہ جن افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے پر غور کیا جارہا ہے وہ "خود کو حاصل سکیورٹی کلیئرنس کو سیاست کے لیے استعمال کرنے اور بعض معاملات میں اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے" میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہ سکیورٹی کلیئرنس رکھنے والے افراد روس کے ساتھ نامناسب روابط اور روس کے زیرِ اثر ہونے کے بے بنیاد الزامات عائد کررہے ہیں اور انہیں حاصل سکیورٹی کلیئرنس کے باعث یہ تاثر جاتا ہے کہ شاید ان کے الزامات کی کوئی حقیقی بنیاد بھی ہے جو ترجمان کے بقول "نہیں ہے۔"

وائٹ ہاؤس کے اس بیان کے بعد سینیٹر رینڈ پال نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے جان برینن کے متعلق صدر ٹرمپ سے بات کرلی ہے۔

اپنے ٹوئٹ میں سینیٹر پال کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ملازموں کو اپنی سکیورٹی کلیئرنس کی بنیاد پر لیکچروں اورٹی وی چینلوں پر تبصرے کرنے کا معاوضہ وصول کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

جان برینن نے صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے بیانات کو "غداری کے مترادف" قرار دیا تھا۔

وائٹ ہاوس نے جن افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کا کہا ہے ان میں سے بھی بیشتر نے ہیلسنکی میں صدر ٹرمپ اور پوٹن کی تخلیے میں ہونے والی ملاقات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ملاقات کے لیے آدھے سے ایک گھنٹے کا وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ دو گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی۔

ملاقات کے بعد پوٹن کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی اس رائے کے درست ہونے پر سوال اٹھایا تھا کہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی اور یہ تاثر دیا تھا کہ وہ صدر پوٹن کے اس بیانیے سے متفق ہیں کہ اس معاملے میں روس کا کوئی کردار نہیں تھا۔

وائٹ ہاؤس نے جن افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے ان میں سوزن رائس بھی شامل ہیں جو صدر اوباما کے دور میں قومی سلامتی کی مشیر تھیں۔ (فائل فوٹو)
وائٹ ہاؤس نے جن افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے ان میں سوزن رائس بھی شامل ہیں جو صدر اوباما کے دور میں قومی سلامتی کی مشیر تھیں۔ (فائل فوٹو)

لیکن بعد ازاں مختلف حلقوں کی کڑی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنا موقف بدل لیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رائے سے پورا اتفاق ہے۔

وائٹ ہاؤس ترجمان کی جانب سے سابق اعلیٰ حکام کی صدر پر تنقید کی وجہ سے ان کی سکیورٹی کلیئرنس واپس لینے کے بیان کو امریکہ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

کئی ماہرین نے اسے امریکی آئین میں کی جانے والی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس میں امریکی شہریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔

کانگریس کے کئی ڈیموکریٹ ارکان نے بھی وائٹ ہاؤس کے اس بیان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG