رسائی کے لنکس

وسل بلوئر کی شناخت سے متعلق صدر ٹرمپ کی ری ٹوئٹ شدید تنقید کی زد میں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کو دوبارہ ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے انٹیلی جنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نامعلوم مبینہ وسل بلوئر کا نام ظاہر کیا ہے جس نے یوکرین کے صدر کے ساتھ صدر ٹرمپ کی خفیہ ٹیلی فون بات چیت کے بارے میں خبر دی تھی۔

صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی پر زور دیا تھا کہ وہ اُن کے سیاسی مخالف اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے حوالے سے تحقیقات کریں۔

صدر ٹرمپ نے جو ٹوئٹ دوبارہ ٹوئٹ کی وہ @Surfermom77 کے اکاؤنٹ سے کی گئی تھی۔ اکاؤنٹ ہولڈر نے خود کو ایک خاتون ظاہر کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کا نام صوفیہ ہے اور وہ کیلی فورنیا کی رہنے والی ہیں۔

تاہم کچھ ہی دیر بعد ہفتے کے روز یہ ٹوئٹ غائب ہو گئی جس سے یہ تاثر ملا کہ صدر ٹرمپ نے خود یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی ہے۔ تاہم ہفتے کی رات کو یہ ٹوئٹ ایک مرتبہ پھر دکھائی دینے لگی اور ٹوئٹر نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ان کے سسٹم کا کچھ حصہ تیکنیکی خرابی کا شکار ہو گیا تھا اور یوں بہت سے ٹوئٹر صارفین یہ ٹوئٹ نہ دیکھ پائے۔

صدر ٹرمپ نے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ وسل بلوئر کا نام ظاہر کیا جائے۔ تاہم ان کی حالیہ ری ٹویٹ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے خود وسل بلوئر کا مبینہ نام اپنے 6 کروڑ 80 لاکھ ٹویٹر فالوئرز کو بھجوایا۔

مبینہ وسل بلوئر انٹیلی جنس اداروں سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی شناخت ظاہر کرنے سے تحفظ کے وفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔

امریکہ میں تاریخی طور پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی نے ہمیشہ ان قوانین کی حمایت کی ہے۔

سماجی رویے کی ویب سائٹ فیس بک اپنی پالیسی کے مطابق ایسی پوسٹ شائع کرنے سے انکار کرتا ہے جس میں مبینہ وسل بلوئر کی شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ تاہم ٹوئٹر کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے اور اس نے یہ ٹوئٹ جاری کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔

مختلف حلقوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ غیر جانبدار ایڈووکیسی تنظیم ’’دا نیو ایجنڈا‘‘ کی صدر ایمی سسکنڈ نے کہا ہے، ’’ہمارے ملک کے صدر کا یہ رویہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے اور انہیں اس کا جواب دینا پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG