بدھ کو اپنی صدارتی مہم کی پہلی تقریب میں، جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلی نے چارلسٹن میں ایک پرجوش ہجوم سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک ماضی کے فرسودہ خیالات اور دھندلے ناموں کو چھوڑ کر آگے بڑھے۔
نکی ہیلی نے کہا کہ ہم تیار ہیں - ماضی کے فرسودہ خیالات اوردھندلائے ناموں کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اور ہم مستقبل میں اپنی نسل کی جانب سے اپنی رہنمائی کے لیے بالکل تیار ہیں۔
انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تذکرہ کرنے کے بجائے ملک کے موجودہ صدر ڈیموکریٹ جو بائیڈن پر اپنی تنقید کو مرکوز رکھا ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈر ناکام ہو رہے ہیں۔ جو بائیڈن سے زیادہ اس ناکامی کو کوئی نہیں سمجھتا۔
ہیلی جو ٹرمپ انتظامیہ میں اقوام متحدہ کی سفیر رہ چکی ہیں ، پہلی ممتاز ریپبلکن ہیں جنہوں نے اپنے سابق باس کی باضابطہ مخالفت کے لیے 2024 کی مہم شروع کی ہے۔ مقابلے میں ان کی شمولیت ان کے اس وعدے کے برعکس ہے جو انہوں نے ماضی میں کیا تھا ۔
ہیلی نے 4 دسمبر 2021 کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ نے انتخاب لڑا تو وہ مقابلے میں حصہ نہیں لیں گی۔
ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے ایک ترجمان کے ذریعے وی او اے کو ایک بیان میں ہیلی کے سابقہ وعدے پر بات کی اور کہا کہ انہوں نے ہیلی سے کہا تھا کہ وہ اپنے دل کی بات مانیں اور جو وہ کرنا چاہتی ہیں وہ کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ان کی خوش قسمتی کے لیے دعا کرتا ہوں۔
تاہم بائیڈن کا سامنا کرنے کے لیے نکی کو ٹرمپ سے جو پہلے ہی اپنی امیدواری کا اعلان کر چکے ہیں اور متعدد دوسرے متوقع ری پبلکن امیدواروں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
ہیلی جو سیاست میں آنے سے پہلے ایک اکاؤنٹنٹ تھیں اپنی آبائی ریاست میں اس وقت نسبتاً نامعلوم تھی جب انہوں 2011 میں گورنر کے لیے اپنی ابتدائی کامیاب دوڑ میں حصہ لیا۔
انہوں نے دوسری مدّت میں اس وقت خدمات انجام دیں جب انہوں نے ایک سیاہ فام چرچ میں ایک سفید فام گن مین کی بڑے پیمانے پر شوٹنگ کے واقعے سے نمٹتے ہوئے اپنا ایک قومی تاثر بنایا اور ریاستی ایوان کے گ نیدان سے کنفیڈریٹ کے جھنڈے کو ہٹانے کے لیے قانون سازی پر دستخط کیے ۔
اپنی صدارتی مہم کے آغاز پر منگل کو جاری ایک ویڈیو میں ہیلی نے خود کو پارٹی کے مستقبل کے ایک امیدوار کے طور پر پیش کیا نہ کہ ماضی کی کسی شخصیت کے طور پر ۔
ہیلی نے کہا کہ ری پبلکنز نے گزشتہ آٹھ صدارتی مقابلوں میں سے سات میں پاپولر ووٹ کھو دیے ہیں ۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہئے ۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر انہوں نے بد ھ کی ریلی میں بھی زور دیا۔
ہیلی نے کہا کہ جنوبی کیرولائنا میں ایک بچی کے طور پر رہنا، ایک سیاہ اور سفید فام دنیا میں ایک براون لڑکی کا پروان چڑھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا،انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے سابقہ سیاسی مقابلوں میں بار بار کمتر سمجھا جاتا رہا ۔ ہیلی بھارت کے سکھ تارکین وطن والدین کی بیٹی ہیں۔
ہیلی نےجو 51 برس کی ہیں، مہم کی تقریب میں اپنے حامیوں سے کہا کہ 75 سال سے زیادہ عمر کے سیاستدانوں کے لیے قابلیت کے ٹیسٹ لازمی ہونے چاہئیں ۔بائیڈن 80 برس کے ہیں اور ٹرمپ جون میں 77 سال کے ہو جائیں گے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو جان فورٹیئر کا کہنا ہے اقوام متحدہ کی سفیر کے طور پر، وہ صدر ٹرمپ کی وفادار تھیں اور ان کے ساتھ تعلق نہیں توڑا جیسا کہ کچھ ریپبلکن پارٹی نے کیا تھا۔ تو میرے خیال میں ان چیزوں کو ایک ری پبلکن ووٹر نئے امیدوار میں مثبت پہلو کے طور پر دیکھے گا۔
منفی پہلو کی بات کریں تو یہ واضح نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے لیے، ری پبلکن ووٹرز کےلیے اتنی ہی مقبولیت یا اتنی ہی مضبوط کشش رکھتی ہے، جتنا کہ کچھ دوسرے امیدوار رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ہیلی کو ایک ہمہ جہت شخصیت قرار دیا۔
ہیلی کا امیدواری کا اعلان ممکنہ طور پر ان ریپبلکنز کے درمیان سے آنے والا پہلا اعلان ہے جو ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی روکنا چاہتے ہیں۔
صدارتی مقابلے میں شمولیت پر غور کرنے والوں میں ٹرمپ کی انتظامیہ میں خدمات انجام دینے والے تین افراد شامل ہیں -- ان کے نائب صدر، مائیک پینس؛ سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن۔
فورٹئیر نے کہا کہ اس میدان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ متبادل کے طور پر ہم جس بڑی شخصیت کی بات کر رہے ہیں وہ فلوریڈا کے گورنر ران ڈی سینٹیس ہیں ۔ اور میرے خیال میں اس کی وجوہات یہ ہیں کہ انہوں نے ایک ریپبلکن جھکاؤ والی ریاست میں ایک بڑے ریاستی گورنر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سی خصوصیات کو پیش کیا۔
فلوریڈا کے گورنر ٹرمپ کی طرح ثقافتی جنگ کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور توقع ہے کہ وہ فنڈز اکٹھا کرنے میں دوسرے ریپبلکن امیدواروں پر سبقت لے جائیں گے۔اس طرح وہ پارٹی کے ان وفاداروں کے لیے پرکشش ہو سکتے ہیں جو ڈیموکریٹک پارٹی کے متوقع نامزد امیدوار موجودہ صدر ، جو بائیڈن کے مقابلے کے لیے ایک مضبوط امیدوار چاہتے ہیں۔
اگر رائے عامہ کے جائزوں میں ہیلی کی مقبولیت دس فیصد سے کم رہتی ہے تو انہیں آخر کار نامزد امیدوار کے لئے ممکنہ طور پر پارٹی کے نائب صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
فیڈرلسٹ کے سینئر شراکت کار بینجمن وینگارٹن نے قدامت پسند نیوز میکس ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ایک اصول ہے کہ آپ کبھی بھی نائب صدر کے لیے انتخاب نہیں لڑتے۔ جب یہ میدان آخر کار ختم ہو گا تو یہ ہی وہ اعلیٰ ترین ن عہدہ ہو گا جو شاید وہ حاصل کر سکتی ہیں۔
قدامت پسند میڈیا کی شخصیات زیادہ تر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں اور ان کی مہم کے قابل عمل ہونے پر اور اس بارے میں سوال اٹھا رہی ہیں کہ آیا وہ در پردہ لبرل تو نہیں۔
قدامت پسند وکیل ول چیمبرلین نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ہیلی ایک لبرل اور آزاد خیال ذہنیت کی مالک ہیں ان کا تعلق جنوبی کیرولائنا سے ہے اس لیے انہیں ریپبلکن کے طور پر انتخاب لڑنا پڑا۔ لیکن ان کے خیالات بالآخر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے تشکیل کردہ ہیں ۔
سابق صدر کے خلاف مقابلہ کرنے والے امیدواروں کا ایک ہجوم ٹرمپ کے لیے جن کا دو بار مواخذہ ہو چکا ہے، وہی کچھ دہرانے کی راہ ہموار کر سکتا ہے جو انہوں نے 2016 میں ایک سیاسی نووارد کے طور پر کیا تھا ، یعنی میدان صاف کرنے اور ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کافی بڑی حمایت حاصل کرنا۔
وی او اے نیوز