ترکی کی فوج نے شمالی عراق میں کرد باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی ہیں۔
حکام کے مطابق پیر کو کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ اہداف پر 18 فضائی کارروائیاں کی گئیں۔
یہ فضائی کارروائیاں ایسے وقت کی گئیں جب ترکی دارالحکومت انقرہ میں اتوار کو ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں 37 افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہوئے۔
بتایا جاتا ہے کہ زخمیوں میں سے لگ بھگ ایک درجن سے زائد کی حالت تشویشناک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا کہ "ملک کی سالمیت، قوم کے اتحاد اور یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے والے یہ حملے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزم کو کمزور نہیں بلکہ اور مضبوط کرتے ہیں۔"
ایک ہی ماہ کے دوران انقرہ میں ہونے والا یہ دوسرا ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
شہر کے مصروف علاقے کیزیلے میں ہونے والے اس دھماکے کے بارے میں وزیر داخلہ افقان علیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ "شہری ایک بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کر رہے تھے کہ انھیں بارود سے بھری کار میں دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔"
وزیراعظم احمد داؤد اغلو اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ "تحقیقات میں اہم شواہد ملے ہیں، لیکن اس میں ملوث تنظیم کے بارے میں تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی بتایا جائے گا۔"
دو روز قبل ہی انقرہ میں امریکی سفارتخانے نے ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ سرکاری عمارتوں والے علاقے میں کسی ممکنہ دہشت گرد حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اتوار کو جہاں یہ دھماکا ہوا وہاں سے کچھ ہی فاصلے پر غیر ملکی سفارتخانے اور سرکاری دفاتر واقع ہیں۔
امریکہ نے اس دہشت گرد حملے کی مذمت کی ہے اور وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ "یہ وحشیانہ اقدام حال ہی میں ترک عوام کے خلاف ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ اپنے گراں قدر شراکت دار ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔"
تاحال کسی تنظیم یا فرد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں شدت پسند گروپ داعش اور کرد علیحدگی پسندوں کی طرف سے ترکی میں پرتشدد واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔