رسائی کے لنکس

ترک کرنسی کی قدر میں کمی


ترک کرنسی لیرا (فائل فوٹو)
ترک کرنسی لیرا (فائل فوٹو)

ترکی کے مرکزی بینک نے لیرا کی مدد کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن سے اس کے کچھ نقصانات پورے کرنے میں مدد ملی ہے۔

نئے سال کی آغاز ترک کرنسی لیرا کے لیے سخت ثابت ہوا ہے اور معیشت، سیاسی عدم استحكام اور قرضوں پر ابھرنے والے خدشات کے باعث پہلے دس دنوں میں اس کی قیمت 8 فی صد تک گر چکی ہے۔

نومورا بینک کے ایک اقتصادی ماہر آئنن ڈیمر کہتے ہیں کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ کیونکہ کرنسی کی ابھرتی ہوئی منڈیوں میں زیادہ تر لیرا ہدف بنا ہے۔

دیمرکا کہنا ہے کہ خدشات کی بڑھتی ہوئی فہرست کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ترکی کی مالیاتی ضروريات، عالمی منفی اثرات اور لیرا کے تحفظ میں مرکزی بینک کی اہلیت کے متعلق خدشات بھی کرنسی کی قدر گرنے کا سبب ہیں۔

صدر رجب طیب اردوان موجودہ سال کے پہلے نصف حصے میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے اختیارات میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اردوان یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سازش کار کرنسی کی قدر پر اثر انداز ہو کر انہیں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بندوق بردار دهشت گرد میں اور ایک ایسے دهشت گرد میں کوئی فرق نہیں ہے جس کے ہاتھوں میں ڈالر اور یورو ہیں۔

صدر اردوان یہ بھی کہتے ہیں کہ مالیاتی منڈیوں میں موجود سازش کار لیرا کے تحفظ کے لیے سود کی شرح میں اضافہ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ترکی کے مرکزی بینک نے لیرا کی مدد کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن سے اس کے کچھ نقصانات پورے کرنے میں مدد ملی ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں اس کا اظہار اردوان کے حالیہ بیانات سے ہوتا ہے جس میں وہ سود کی شرح میں اضافے کی مخالفت میں نرم پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

ماہر اقتصاديات دیمر کہتے ہیں کہ ترکی کا قرضه 213 ارب ڈالر ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کے تقربیاً 20 فی صد ہے۔

لیکن تجزیہ کار یسیلاڈا کا کہنا ہے کہ اگر بحران پر قابو بھی پا لیا جاتا ہے تو بھی آنے والے برس لیرا کے لیے پریشان کن ہوں گے۔ کاروباری شعبہ اپنے غیر ملکی قرضوں پر بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث نا امیدی کا شکار ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نئے کار خانے لگانے یا نئے ملازم رکھنے کے منصوبے ختم کر رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔

XS
SM
MD
LG