رسائی کے لنکس

ترکی۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مضبوط پل


ترکی۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مضبوط پل
ترکی۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مضبوط پل

ایک ایسے وقت میں جب شام سمیت عرب دنیا کے کئی مسلمان ملکوں میں سیاسی تبدیلی کی لہر حکومتوں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا شکار ہے، امریکہ سمیت مغربی دنیا کے ماہرین ترکی کو ایک ایسے پل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو اپنی تیزی سے مضبوط ہوتی معیشت اور سیاسی استحکام کی وجہ سے مغربی دنیا کو مشرق کے قریب لا سکتا ہے ۔ اتوار کے انتخابات میں حکمران جسٹس پارٹی کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم طیب اردگان نے ترکی کے نئے آئین کی تیاری میں حزب اختلاف کے تمام حلقوں کی رائے کے احترام کا عزم ظاہر کیا ہے ، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ بیرونی دنیا میں اپنا اثربڑھانے کے لئے ترکی کے کچھ اندرونی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

ترک وزیر اعظم طیب اردگان نے انتخابات میں اپنی جسٹس پارٹی کی کامیابی کو جمہوریت استحکام اور امن کی فتح قرار دیا ہے ۔خطیر سرمائے سے ہونے والے ترکی کےیہ انتخابات ، ترک حکومت کے بقول اس بات کے غماز تھے کہ ترکی ایک مضبوط ہوتی جمہوریت ہے ۔ خطے اور عالمی سٹیج پر ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر کی طرح ترک معیشت بھی 2010ء میں 7.3 فیصد کی رفتار سے بڑھی۔

والکن بوزکیرترکی کے انتخابات میں جسٹس اور ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدوار تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی اپنی تاریخ کے انتہائی اہم دور سے گزر رہا ہے ، معیشت ، جمہوریت ، سیاسی استحکام، پڑوسی ملکوں سے تعلقات اور خارجہ میدان میں یہ ترکی کے لئے کامیابیوں کا دور ہے ۔

وزیر اعظم طیب اردگان نے اپنی انتخابی مہم ایک ایسے وقت میں چلائی جب ترکی کے پڑوسی ملکوں میں سیاسی تبدیلی کے مطالبات خطے کی سالہا سال سےجاری صورتحال کو ایک نیا رخ دے رہے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکمران جسٹس پارٹی کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی تو اس کے لئے ترکی کے آئین میں تبدیلی کرنا آسان ثابت ہوتا جو 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی فوجی حکومت نے مرتب کیا تھا ۔

والکن بوزکیرکہتے ہیں کہ یہ آئین فوجی دور حکومت کی پیدا وار ہے ، جسے اپنے ہی لوگوں کی نسلی تفریق سےخوفزدہ ہو کر بنایا گیا تھا ۔ اگر ہم آئین میں ترمیم کر کے اسے عوامی بنا لیں تو ایسے خوف ختم ہو جائیں گے ۔

حکمراں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے والکن بزکر کہتے ہیں کہ آئین میں تبدیلی سے ترک اقلیتوں خصوصا کردوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ جو ترکی کے مشرق میں مزید حق خودمختاری حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ لیکن کرد راہنماوں کو ایسی باتوں پر بھروسہ نہیں ۔

ایک آزاد امیدوار سری ثریا کا کہناہے کہ ترک آئین نسلی بنیاد پر بنایا گیا ہے ، انہیں دیگر نسلی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آئین میں تبدیلی کرنی چاہئے ۔ ترکی کے کئی مسائل کی وجہ کردوں کا مسئلہ ہے ، اسے حل ہونا چاہئے ۔

طیب اردگان پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ترکی میں صدارتی انداز کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اختیارات کا مرکز ان کی اپنی ذات ہو۔

جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک کی ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والےحزب اختلاف کے اوگز کان کہتے ہیں کہ حکومت ذرائع ابلاغ کے اداروں اور کارکنوں پر دباو میں اضافہ کر رہی ہے ، تاکہ وہ ان پر تنقید نہ کر سکیں ۔

حزب اختلاف کے حلقے وزیر اعظم اردگان پر ترکی کو اس کی سیکو لر بنیادوں سے دور اور ایک روایتی اسلامی ریاست کی طرف لے جانے کا الزام بھی لگاتے ہیں ۔ اور ترک حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا عین عوامی خواہشات کے مطابق ہے ۔

جب کہ والکر کہتے ہیں کہ 99فیصدآبادی مسلمان ہے ، آپ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ملک سیکولر ہے اس لئے آپ کو حق نہیں کہ مذہب کو اہمیت دیں ۔

مغربی دنیا ترکی کو ایک ایسا طاقتور ملک سمجھتی ہے جو مسلمان ملکوں سے رابطوں میں پل کا کام دے سکتا ہے ۔ اوگزکان کا کہناہے کہ ہم ترکی میں مزید جمہوریت چاہتے ہیں ، اورجب ہم مزید جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں خصوصا مشرق وسطی میں بھی مزید جمہوریت کی بات کر رہے ہیں ۔

ترکی کے انتخابی نتائج یورپ کے لئے ہی نہیں ، امریکہ کے لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں ، خصوصا ایک ایسے وقت میں جب ماہرین کے مطابق ترکی کے سرحدی پڑوسیوں ، خصوصا شام کے معاملے میں ترکی ایک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG