رسائی کے لنکس

ایران۔ترکیہ سر براہی اجلاس، غزہ جنگ پر اتفاق رائے، پھراختلاف کس پر؟


 ترک صدر رجب طیب ایردوان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک نیو ز کانفرنس کے دوران، فائل فوٹو
ترک صدر رجب طیب ایردوان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک نیو ز کانفرنس کے دوران، فائل فوٹو

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ایک سر براہی اجلاس کے لیے بدھ کو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل حماس جنگ اجلاس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہو گی ۔

دونوں رہنما حماس کے لیے اپنی حمایت کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ان کے درمیان اختلافات بدستور موجود ہیں کیوں کہ ایران اور ترکی قفقاز اور شام میں اثر و رسوخ کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

ترکیہ حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے دوران فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کر رہا ہے اور ترک صدر رجب طیب ایردوان حماس کو آزادی کی ایک تحریک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو امید ہے کہ انقرہ میں ایردوان کے ساتھ مذاکرات میں وہ اس مشترکہ موقف کو مزیدتقویت دے سکتے ہیں ۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان 9 نومبر 2023 کو تاشقند میں 16 ویں اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن سمٹ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے کے ساتھ اجلاس کر رہے ہیں ، فائل فوٹو
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان 9 نومبر 2023 کو تاشقند میں 16 ویں اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن سمٹ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے کے ساتھ اجلاس کر رہے ہیں ، فائل فوٹو

رئیسی کے دورے سےقبل ترکیہ کی سیکیورٹی فورسز نے اس ماہ کے اوائل میں متعدد لوگوں کو گرفتار کیا تھا جن پر الزام تھا کہ وہ اسرائیلی انٹیلی جینس کے لیے ترکیہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف جاسوسی کر رہے تھے۔

بہت زیادہ تشہیر کیےجانے والے چھاپوں کو وسیع پیمانے پر اسرائیل کے لیے ایک انتباہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ فلسطینیوں کے لیے انقرہ کی حمایت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

اسرائیل نے ابھی تک ان گرفتاریوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

مبصرین کا تجزیہ

انقرہ میں ایک ریسرچ آرگنائزیشن ،فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سر براہ حسین باغچی کہتے ہیں کہ رئیسی کے ترکیہ کے دورے سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کس طرح ابھی تک مشرق وسطیٰ میں عمومی طور پر اپنا عمل دخل برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے معاملے میں وہ ترکیہ سے مزید مستحکم حمایت کا بھی خواہاں ہے۔

لیکن مبصرین نے پیش گوئی کی ہے کہ ایردوان، رئیسی کی جانب سے ایسے کسی بھی مطالبے کے خلاف مزاحمت کریں گے جس میں انہیں اسرائیل کے لیے تیل کی ترسیل کے سب سے بڑے راستے کے طور پر اپنا کردار ختم کرنے کے لیے کہا جائے۔

وہ کہتے ہیں ایردوان کو عرب اتحادیوں اور ایران کے درمیان ایک محتاط متوازن کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔

حسین باغچی کہتے ہیں،"ترکیہ اس معاملے میں ایران کے ساتھ جتنے زیادہ اشتراک سے کام کرے گا، عرب ملکوں کی نظروں میں وہ اتنا زیادہ ہمدردی سے محروم ہو جائےگا۔ یہ ترکیہ کے لیے بہت خطرناک صورت حال ہے۔ ترکیہ کو اسے بہتر طور بیلنس کرنا چاہئے۔"

اگرچہ ایرانی اور ترک رہنما اسرائیل کی مذمت میں متحد ہیں، تاہم کچھ تجزیہ کار پیش گوئی کرتے ہیں کہ امکان ہے کہ ایردوان رئیسی پر تنازعے پر قابو پانے کی اہمیت پر زور دیں گے۔

انقرہ ایران اور ترکیہ کے قریبی اتحادی، پاکستان کے درمیان میزائلوں کے مہلک حملوں پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ ایران اور ترکیہ کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں حریف فریقوں کی حمایت پر بھی اختلافات موجود ہیں۔

تجزیہ کار انتباہ کرتے ہیں کہ ترکیہ کی جانب سے ایران کے ایک حریف، آذر بائیجان کی فوجی پشت پناہی، جو دو طرفہ کشیدگی کو بڑھانے والا ایک اور معاملہ ہے۔ اور امکان ہے کہ دونوں رہنما انقرہ میں اپنے مذاکرات کے دوران اس پر بھی بات کریں گے۔

استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی میں انٹرنیشل ریلیشنز کی ایک پروفیسر بلگیہان الاگوز کہتی ہیں،" ایسا لگتا ہے کہ ایران کو ترکیہ اور آژذربائیجان کے درمیان موجود تعاون پر کچھ اسٹریٹیجک خدشات لاحق ہیں ۔"

لیکن وہ کہتی ہیں کہ،" ترکیہ نے ہمیشہ ایران کو بھی اس تعاون میں شامل ہونے کی تجویز دی ہے۔ ترکیہ نے ایران کو کبھی بھی منہا نہیں کیا ہے لیکن یہ وہ مطمح نظر نہیں ہے جسے ایران نے اپنایا ہے۔"

رئیسی اور ایردوان کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز غزہ ہے اور فی الحال یہ ایک مشترکہ بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ اب جب کہ قفققاز اور وسطی ایشیا میں دوسرے پیچیدہ مسائل جاری ہیں، انقرہ بدھ کو ترکیہ اور ایران، دونوں کی جانب سے توازن پر مبنی ایک محتاط عمل کے اظہار کا پلیٹ فارم بننے جا رہا ہے۔

ڈورین جونز وی او اے

فورم

XS
SM
MD
LG