رسائی کے لنکس

ترکی: ریفرنڈم سے قبل سوشل میڈیا صارفین کو دباؤ کا سامنا


جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کا مجسمہ اور ترکی کے صدر طیب ارداون کا پوسٹر ( فائل فوٹو)
جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کا مجسمہ اور ترکی کے صدر طیب ارداون کا پوسٹر ( فائل فوٹو)

ریفرنڈم میں صدر کی مخالفت کرنے والوں کو ذرائع ابلاغ میں ’کوریج‘ نا ملنے پر، ان کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ترکی میں صدر طیب اردوان کے اختیارات میں مجوزہ اضافے کے لیے منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں ابھی چند ہفتے باقی ہیں اور عوامی جائزوں کے مطابق ریفرنڈم میں 'ہاں' اور 'نا" کے حق میں ووٹ دینے والوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

ریفرنڈم میں صدر کی مخالفت کرنے والوں کو ذرائع ابلاغ میں ’کوریج‘ نا ملنے پر، ان کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ ان افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔

ترکی کے قانون کے ایک طالب علم علی گل نے سماجی میڈیا پر "نا" کے حق میں ووٹ نا دینے کے بارے میں مزاحیہ انداز میں ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اختیارات کو ایک شخص کے ہاتھ میں دینا خطرناک ہو سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو تیزی سے مقبول ہو گئی، ویڈیو کے آخر میں گل نے پوچھا کہ " کیا اس ویڈیو کے مقبول ہونے پر انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔"

اس ویڈیو کے مقبول ہونے کے فوری بعد گل نے ایک اور ویڈیو جاری کی اور اس نے کہا کہ وہ یہ جانتا تھا کہ اسے وڈیو بنانے پر گرفتار کر لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "میں اب استغاثہ کے پاس اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے جا رہا ہوں۔"

"اس بات کا امکان ہے کہ اس کے بعد مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن یہ اہم نہیں ہے مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ اس ملک کے بچے اور نوجوان آزادی اور خوشی کا حق رکھتے ہیں۔۔۔ قید اور موت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔"

گل کو گرفتار کرنے کے بعد جیل بھیج دیا گیا، لیکن ایسا بظاہر وڈیو کی وجہ سے نہیں ہوا ہے۔

انہیں ان کی دو سال کی پرانی ٹویٹس کی بنا پر گرفتار کیا گیا جو مبینہ طور پر صدر کے لیے توہین آمیز تھیں اور اگر ان کے خلاف یہ جرم ثابت ہوتا ہے تو اس کی سزا تین سال قید ہے۔

گل اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ یہ ٹویٹس انھوں نے لکھی تھیں تاہم ان کے وکیل نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت شروع ہونے سے پہلے انہیں کئی ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ترکی میں تحقیق کار ایما ویب کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا میں ریفرنڈم میں "نا" کے حق میں مہم چلانے والوں کو بظاہر دھمکانے کی ایک منظم مہم جاری ہے۔

دوسری طرف ملک کے آزاد ذرائع ابلاغ کو تقریباً مکمل طور پر دبا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد 150 سے زائد صحافیوں کو جیل میں بند کر دیا گیا جب کہ 170 ذرائع ابلاغ کو حکومت پر تنقید کرنے کی بنا پر بند کر دیا گیا۔

تاہم حکومت کا موقف ہے کہ میڈیا کے اداروں کی بندش اور ان کے خلاف مقدمات کا تعلق مبینہ دہشت گردی کی کارروائیاں اور ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے سے ہے۔

ترکی کے زیادہ تر ٹی وی چینل صدر کو زیادہ اختیارات دینے لیے ریفرنڈم میں "ہاں" کے حق میں ووٹ دینے کی مہم کے بارے روزانہ کم ازکم تین یا چار تقاریر نشر کرتے ہیں لیکن "نا" کے حق میں مہم بہت کم نظر آتی ہے۔

اسی وجہ سے ریفرنڈم میں"نا" کے حق میں مہم چلانے والوں کے لیے سوشل میڈیا نہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن گزشتہ چھ ماہ کے دوران سوشل میڈیا پر صدر کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز پوسٹ کی وجہ سے دو ہزار پانچ سو مقدمات بنائے گئے ہیں۔

مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ جیسے جیسے ریفرنڈم کی مہم ختم ہونے کے قریب ہو گی تو سماجی میڈیا پر سرگرم افراد کے خلاف اس طرح کے دباؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG