رسائی کے لنکس

موصل کی لڑائی، عراق اور ترکی میں اختلاف


ترک صدر
ترک صدر

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے عراق کے وزیراعظم کو متنبہ کیا ہے کہ عراقی شہر موصل کو شدت پسند گروپ داعش کے تسلط سے آزاد کروانے کی لڑائی میں سے ترک فوجیوں کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔

ایک ہزار سے زائد ترک فوجی پہلے ہی شمالی عراق میں اپنی پوزیشنز سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ موصل پر کارروائی کے لیے بین الاقوامی افواج کی معاونت سے تیاری مکمل کی جا رہی ہے۔

منگل کو استنبول میں سنی مسلم راہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے اردوان کا کہنا تھا کہ عراق میں پہلے سے موجود ترک فوجی موصل کے قریب سے اپنا اڈہ خالی نہیں کریں گے۔ ان کے بقول ترکی کی فوج بغداد کی شیعہ حکومت سے احکامات نہیں لے گی۔

"ترکی کی فوج اس معیار تک ہاری ہوئی نہیں ہے وہ آپ (عراقی وزیراعظم) سے احکامات لے۔" ان کا اشارہ بغداد کے ان مطالبات کی طرف سے جس میں ترک فوجیوں کو یہاں سے نکل جانے کا کہا گیا تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ اس وقت پیدا ہوا تھا جب کہ جب گزشتہ سال کے اواخر میں ترکی نے موصل کے شمال مشرق میں سنی غالب اکثریت والے علاقوں میں مقامی لوگوں کو داعش کے خلاف لڑائی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے اپنے فوجی مامور کیے تھے۔

بغداد اس وقت سے اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ترک فوجیوں سے یہاں سے نکل جانے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔

ترکی مسلسل متنبہ کرتا آ رہا ہے کہ اگر موصل سے عسکریت پسندوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے تو اس شہر اور اس کے گردونواح میں سنی آبادی شیعہ ملیشیا کے زیر کنٹرول چلی جانے کا خدشہ ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے متنبہ کیا تھا کہ ترکی، عراق میں اپنے فوجیوں کو تعینات رکھ کر علاقائی جنگ کے خطرے کو ہوا دے رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کو کہا کہ عراق میں موجود تمام غیر ملکی فوجوں کو بغداد حکومت کی توثیق حاصل کرنی چاہیے اور یہ خود کو داعش کے خلاف محدود کردہ لڑائی تک ہی رکھیں۔

XS
SM
MD
LG