رسائی کے لنکس

ترکی کے کرد باغیوں کے ٹھکانوں پر نئے حملے


فائل
فائل

ترک وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ سرحدی پہاڑیوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے جو بھی کرنا پڑا، حکومت کرے گی۔

ترکی کے جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد کےنزدیک علاقے میں کرد باغیوں کےٹھکانوں پر نئے حملے کیے ہیں۔

ترک فوج کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق 'ایف-4' اور 'ایف-16' طیاروں نے اتوار کی شب اور پیر کی صبح سرحدی پہاڑی علاقے میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے 23 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

ترک فوج نے یہ تازہ حملے کرد باغیوں کی جانب سے اتوار کو ایک فوجی قافلے پر کیے جانے والے حملے اور فوج اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں کے ردِ عمل میں کیے ہیں جن میں باغیوں کے دعوے کے مطابق 31 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

'پی کے کے' کے مطابق عراق اور ایران کی سرحد سے متصل ترک صوبے حکاری میں اس کے جنگجووں نے سڑک کے کنارے بم نصب کیے تھے جن کے پھٹنے سے فوجی قافلے کی دو گاڑیاں تباہ ہوگئی تھیں۔

علاقے میں بعد ازاں باغیوں اور فوج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں علاقے میں تعینات ترک فوجی بٹالین کا کمانڈر لیفٹننٹ کرنل بھی شامل ہے۔

ترک فوج نے حملے اور جھڑپوں میں 16 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جو حالیہ کشیدگی کے دوران ترک فوج کو کسی ایک دن میں پہنچنے والا سب سے زیادہ جانی نقصان ہے۔

حملے کے بعد ترک وزیرِاعظم احمد اوغلو قونیہ شہر کا دورہ مختصر کرکے دارالحکومت انقرہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے پیر کو ترک مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترک وزیرِاعظم نے کہا کہ سرحدی پہاڑیوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے جو بھی کرنا پڑا، حکومت کرے گی۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان کے دعوے کے مطابق جولائی میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک دو ہزار سے زائد کرد باغی مارے جاچکے ہیں۔

'پی کے کے' نے جولائی کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ وہ 2013ء سے نافذ جنگ بندی کی ترک سکیورٹی فورسز کی جانب سے خلاف ورزیوں کے جواب میں سرکاری تنصیبات اور اہلکاروں پر حملے کرے گی۔

کرد باغیوں کی اس دھمکی کے بعد ترک حکومت واضح کرچکی ہے کہ جب تک "ایک بھی دہشت گرد باقی ہے"اس وقت تک ترک فوج اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی۔

کردستان ورکرز پارٹی 1984ء سے ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں کی آزادی اور الگ ریاست کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے جن میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ترک حکومت نے 2012ء کے اختتام پر باغی تنظیم کے ساتھ مذاکرات اور کرد اکثریتی علاقوں میں تعمیر و ترقی کے کئی منصوبوں کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی تھی۔

XS
SM
MD
LG