رسائی کے لنکس

لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی کے باعث 'خاتون بازار' بھی ماند پڑ گیا


ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی گرتی ہوئی قدر (فائل فوٹو)
ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی گرتی ہوئی قدر (فائل فوٹو)

آٹھ سال قبل، ہیزل تنک نے اپنی سہیلیوں سے مل کر گھریلو تشدد کی شکار اور طلاق یافتہ خواتین کی مدد کے لیے ترکی کا پہلا 'خاتون بازار' قائم کیا۔ اس ادارے کے سائے تلے وہ اب تک نہ صرف برسر روزگار تھیں بلکہ انھیں درکار تحفظ بھی میسر تھا۔

ترکی میں کاروبار کو سلیقے سے چلایا جائے تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حالیہ دنوں کے دوران ترکی کی کرنسی، لیرا کی قدر میں بے تحاشہ کمی کے باعث عام کاروبار یک دم ماند پڑ چکا ہے۔ 'خاتون بازار' پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں 48 فی صد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔

کردستان کے جنوب مشرقی شہر،دیار باقر میں کاروبارخاصہ عروج پر تھا جب تقریباً چھ ماہ قبل یکایک اس پر مندے کا سایہ پڑا، لیرا کی قدر گھٹنے سے عام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یوں گھریلو بجٹ بے قابو ہو گیا۔

چھیالیس برس کی تنک تین بچوں کی ماں ہیں۔ انھوں نے پھل، سبزیوں اور دستکاری کی فروخت کے لیے ایک بازار کا اہتمام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ قوت خرید میں کمی آچکی ہے۔ ''افسوس یہ کہ فروخت مکمل طور پر ٹھپ ہو چکی ہے۔ ماضی میں جہاں صارفین دو کلو گاجر لیتے تھے، اب وہ بمشکل تین گاجریں خریدنے کی سکت رکھتے ہیں''۔

لیرا کا بحران تب آیا جب افراط زر نے زور پکڑا اور معاشیات دانوں کے انتباہ کے باوجود صدر طیب اردوان سود کی شرح کو کم رکھنے پر مصر رہے۔

ترکی میں کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ترکی میں کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اب تو سبھی بازی ہار چکے

ایک وقت تھا جب سڑک پر قائم خاتون بازار میں 256 خواتین اپنی اشیا فروخت کیا کرتی تھیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان کی تعداد گھٹ کر 69 رہ گئی ہے۔

ہیزل تنک نے کہا کہ اب تو حال یہ ہے کہ سبھی کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ اصل میں لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے، اور یہی حال ہماری فروخت کا بھی ہے۔

گزشتہ ہفتے جب حکومت نے ڈپازٹ کے تحفظ کے منصوبے کا اجرا کیا تو مارکیٹ تیزی سے بہتری کی جانب پلٹنے لگی۔ حکومت نے اربوں ڈالر مارکیٹ میں ڈالے اور اس مداخلت کے نتیجے میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔

ترکی میں مہنگائی: صدر ایردوان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00

بقول ہیزل تنک، ''اگر حکومت اس طرح سے مداخلت کرسکتی ہے تو تین چار ماہ قبل وہ کہاں تھی؟ اس عرصے میں کئی لوگوں نے خودکشی کی چونکہ ان پر قرضہ چڑھ چکا تھا۔ اگر اتنا ہی آسان تھا۔ اگر حکومت یہ مسئلہ حل کرسکتی تھی، تو پھر یہ اقدام پہلے کیوں نہیں لیا گیا؟''

حکومت کی جانب سے مداخلتی اقدام سے ایک ہفتہ پہلے، ایک ڈالر 18 لیرا کے برابر تھا۔ پیر کے دن یہ کم ہو کر 11.4 لیرا تک پہنچا۔ تاہم اب بھی پچھلے ایک سال کے مقابلے میں اس کی شرح35 فی صد کم ہے۔

معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ لیرا عدم تحفظ کا شکار ہے اور یہی حال لوگوں کے معیار زندگی کا بھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آئندہ سال افراط زر بڑھ کر 30 فی صد کی شرح کو چھونے کی پیش گوئی کی گئی ہے جب کہ گزشتہ ماہ یہ 21 فی صد کی شرح پر تھا، ایسے میں جب درآمد کی جانے والی اشیا کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور آڑھت کے کاروبار سے وابستہ افراد اشیا، توانائی اور محنت کے عوض اجرت میں اضافے پر مجبور ہوں گے۔

ایک سبزی فروش، ہانم ڈوگن کا کہنا ہے کہ اب بنیادی ضرورت کی اشیا خریدنے کے لیے لوگوں کو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ''ایک روٹی کی قیمت ایک دن چار لیرا ہوتی ہے جب کہ دوسرے روز یہ سات لیرا کی ہو چکی ہوتی ہے۔ لوگ پریشان ہیں انھیں نہیں معلوم کہ حالات سے کس طرح نمٹا جائے۔ ایک شخص جو پہلے پانچ کلوگرام مالٹے خریدتا تھا اب وہ صرف ایک یا دو کلوگرام خرید سکتا ہے''۔

ہانم نے بتایا کہ مالی صورت حال مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا ہے)

XS
SM
MD
LG