رسائی کے لنکس

اسرائیلی انتباہ کے باوجود، ترکی کے بحری جہازوں کا غزہ کی طرف سفر


ترکی کے تین بحری جہاز، جہازو ں کے اُس بیڑے میں شامل ہوچکے ہیں جو فلسطینیوں کے لیے تعمیراتی سامان اوردیگر امداد لے کر غزہ پٹی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ جہاز ، اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اِس اقدام کو جمعرات کو اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے ‘سستی سیاسی شعبدہ بازی’قرار دیا۔

یہ بحری جہاز بحیرہٴ روم میں ترکی کی اناطولیہ بندرگاہ سے روانہ ہوئے اور اُن کے آگے آگے ‘ماوی مرمارا’ بحری جہاز ہے۔ اُن کی منزلِ مقصود غزہ کی پٹی ہے جس کی اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

یہ جہاز پانچ دوسرے مال بردار مسافر بردار جہازوں میں شامل ہو رہے ہیں جن میں انسانیت کے ناطے فراہم کی جانے والی دس ہزار ٹن امداد، تعمیراتی سامان اور غزہ جانے والے سات سرگرم کارکن سوار ہیں۔ اِس بیڑے کا ارادہ ہے کہ وہ اِس فلسطینی علاقے پر نافذ اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑیں گے، باوجود یکہ اسرائیل نے اُنھیں ایسا کرنے سے منع کر کھا ہے۔ چناچہ 2009ء میں غزہ پر اسرائیل نے جو حملہ کیا تھا اس میں تباہ ہونے والی بہت سے عمارتوں کی ابھی تک مرمت نہیں ہو سکی۔

بحیرہٴ روم میں ترکی کی بندرگاہوں اور یورپ سے روانہ ہونے والے یہ جہاز بالآخر قبرص کے نزدیک ایک مقام پر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ فلسطین کے حامی سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس مقام سے یہ بیڑہ ہفتے کے روز غزہ روانہ ہوگا۔

اِس بیڑے کو ترکی والے حصے کے حقوقِ انسانی کی ایک فیڈریشن IHHنے منظم کیا ہے۔ اس کے سیکریٹری جنرل یاسر کٹ لوے کُٹ لوئے کا کہنا ہے کہ اُن کا ارادہ یہ سامان وہاں پہنچانے کا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ جنیوا کنوینشن کی رو سے کوئی بھی ملک، جس سے اُن کی مراد اسرائیل ہے، جنگ کے علاقے میں جانے والے کسی شہری یا امدادی جہاز کو روک نہیں سکتا۔ جہاز پر فائر کھولنا ناممکن ہے۔

اِسی فاؤنڈیشن نے ہی اِس سے پیشتر اِسی سال غزہ کے گرد سرحدوں کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کی تھی۔ حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی نے ناکام ہونے والی اِس کوشش میں حصہ لیا تھا۔ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے کہا ہے کہ وہ بحری جہازوں کے بیڑے کو روکے گا اور کارکنوں کو اُن کے ملکوں کو واپس بھیج دے گا۔ لیکن، اِسی ہفتے ترکی کے وزیرِ خارجہ داؤداوغلو نے جہازوں کے مشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے ترکی نے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ذرائع سے ہر ممکن سرکاری کوشش کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش صورتِ حال حکومتِ ترکی کے لیے ایک نازک معاملہ ہے، جو علاقے میں اسرائیل کا سٹریٹجک اتحادی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے 2009ء کی فوجی کارروائی اور جاری معاشی پابندی پر ترکی کے متعدد شہری مشتعل ہیں۔ گذشتہ سال ڈیووس میں ہونے والے اقتصادی سربراہ اجلاس میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اُردگان نے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے خلاف ترش الفاظ استعمال کیے۔ حال ہی تک، اسرائیل اور ترکی کے مابین قریبی فوجی اور سیاسی تعاون تھا۔ لیکن اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کی نتیجے میں ترکی کی قیادت اکثرو بیشتر اسرائیل کی مذمت کرتی رہی ہے۔

صُوات کِنی اُوغلو، ترک پارلیمان میں خارجہ امور کی کمیٹی کے ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا معاملہ اب غزہ کی قسمت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔

کِنی اوغلو کے الفاظ میں، اگر غزہ کے معاملے پر اسرائیلی حکومت کا موجودہ مؤقف جاری رہا تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ ترکی اور اسرائیلی تعلقات مشکل اور نازک نوعیت کے رہیں گے۔لہٰذا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک نئے دور کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

لیکن ترکی کی طرف سے انسانی ناطے اور حقوقِ انسانی کے معاملے پر تشویش کے اظہار کے باعث کچھ مغربی اتحادیوں کی طرف سے ریا کاری کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے سابق رُکن، رابرٹ ویکسلر، اِس وقت واشنگٹن میں قائم مشرق ِ وسطیٰ کے بارے میں امن اور اقتصادی تعاون کے مرکز کے صدر ہیں۔ وہ خود کو ترکی کا دوست کہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ویکسلر نے ترکی کے وزیر اعظم پر دوہرے معیار کا الزام عائد کیا ۔

ویکسلر کے بقول، جب وزیرِ اعظم دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کی بات کرتے ہیں، وہاں غم و غصہ کہاں چلا گیا؟ اِس خطے میں دہشت گردی حزب اللہ نے لبنان میں اور حماس نے غزہ میں پیدا کی ہے۔ برسہا برس تک جب اسرائیل کے شہری اہداف پر حملے ہو رہے تھے، اُس وقت یہ اشتعال کہاں تھا؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اتحادی کی طرف سے اِس قسم کی نکتہ چینی ترک حکومت کے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔

اُس نے اسرائیل کے خلاف جو سخت وطیرہ اختیار کر رکھا ہے اُس کا عوام پر اچھا اثر پڑاہے اور ایک سال قبل جو عام انتخابات ہوئے اُس میں اِس کی کلیدی اہمیت تھی۔

XS
SM
MD
LG