رسائی کے لنکس

دعا زہرا اور نمرہ کاظمی کیس میں اہم موڑ


دعا کاظمی،
دعا کاظمی،

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 16 اپریل کو پراسرار طور لاپتا ہونے والی 14 سالہ دعا زہرا لاہور میں موجود ہیں۔ ان کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ظہیر احمد نامی شخص سے نکاح کرلیا ہے۔ جو لاہور کارہائشی ہے ۔ نکاح نامے میں دعا زہرا کی عمر 18 سال درج ہے۔

اس اطلاع کے سامنے آنے پر کہ دعا زہرا مل گئی ہیں ان کے والد سید مہدی کاظمی نے فوری طور پر اس کی تردید کی اور کہا کہ میڈیا پر جھوٹی خبریں چل رہی ہیں۔دعا کے والد کو ان کی بیٹی کے بارے میں خبر مقامی میڈیا سے ملی۔ لیکن ان کی بیٹی منظرعام پر نہیں آئی۔

مہدی کاظمی کے بقول انہوں نے پہلے ہی اپیل کی ہے کہ ان کی بیٹی کو سامنے لایا جائے اور اگر ان کی بیٹی انہیں سن رہی ہے تو وہ صرف اتنا کہیں گے کہ وہ واپس آجائے۔ان کا کہنا تھا کہ دعا چار روز بعد 14 برس کی ہو جائے گی۔ نکاح نامے میں درج عمر غلط ہے۔

واضح رہے کہ سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی نے پیر کو دعا زہرا کی لاہور میں موجودگی کی تصدیق کی تھی۔

اس اطلاع سے قبل وائس آف امریکہ نےسید مہدی کاظمی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور تفتیشی حکام کی جانب سے انہیں میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

البتہ دعا کے ملنے کی خبریں سامنے آنے پر ٹوئٹر پر 'دعا زہرا' کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا جس پر ان کے والد نے میڈیا پر آکر ان خبروں کی تردید کی۔

لاہور میں دعا کی موجودگی کی خبر ملنے کے بعد پیپلزپارٹی کی صوبائی وزیربرائے خواتین و بہبود شہلا رضا دعا کے گھر گئیں اور ان کے والدین سے ملیں۔ شہلا رضا نے کہا کہ دعا کمسن ہے اور یہ نکاح جائز نہیں ہے۔

ان کے بقول سندھمیں کم عمری کی شادی کی عمر 18 برس جب کہ پنجاب میں 16 برس ہے لیکن دعا کی عمر بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل آئی جی سے بات کی ہے نکاح نامہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر دعا زہرہ کا گردش کرنے والا نکاح نامہ
سوشل میڈیا پر دعا زہرہ کا گردش کرنے والا نکاح نامہ

دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز پولیس لاہور ڈاکٹر عابد خان کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس نے لاہور پولیس کو دعا زہرا کا نکاح نامہ فراہم کیا ہے جس پر درج پتے پر لڑکی کو تلاش کیا جارہا ہے،ان کے بقول نکاح پر موجود دو گواہان کے موبائل نمبرز بھی بند جا رہے ہیں۔ انہوں نے مقامی میڈیا پر دعا کی بازیابی کی خبروں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی لڑکی کی تلاش جاری ہے۔ لڑکی کی بازیابی کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔

دعا زہرا کی گمشدگی کے بعد کراچی کے علاقے سعود آباد سے15 سالہ نمرہ کاظمی کے لاپتہ ہونے کی اطلاع بھی20 اپریل کو سامنے آئی تھی ۔ نمرہ کے والدین نے میڈیا کو بتایاتھا کہ ان کی بیٹی میٹرک کی طالبہ ہے۔ گھر کے تمام افراد جب صبح اپنے کام پر گئے تو واپسی پر انہیں اپنے گھر کا دروازہ کھلا ملا اور ان کی بیٹی موجود نہیں تھی، جب کہ بیٹی کا موبائل نمبر بھی بند جارہا تھا۔

نمرہ کی والدہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس میں درج کروائی ہے۔ پیر کو جب دعا زہرا کے ملنے کی خبر سامنے آئی تو نمرہ کاظمی کا بھی پتا چل گیا۔

نمرہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے گئی اور اس نے ڈیرہ غازی خان میں نجیب شاہ رخ نامی نوجوان سے شادی کر لی ہے۔

انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ وہ 17 اپریل کو ڈیرہ غازی خان پہنچی تھیں۔18 اپریل کو انہوں نے شادی کی۔ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا۔

نمرہ کاظمی
نمرہ کاظمی

نمرہ کاظمی نے ایڈیشنل سیشن جج تونسہ کو ایک حلف نامہ جمع کروایا ہے،جس میں نمرہ نے لکھا ہے کہ انہیں اغوا نہیں کیا گیا۔ ان کی منگنی بچپن میں شاہ رخ سے ہوچکی تھی لیکن ان کے والد ندیم کاظمی زبردستی ایک بوڑھے شخص سے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے جس سے انکار پر انہیں ہراساں کیاگیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جب معاملات شدت اختیار کر گئے تو انہوں نے نجیب شاہ رخ سے رابطہ کیا اور وہ ڈیرہ غازی خان آگئیں اور اپنی مرضی سے شادی کرلی۔

دعا زہرا کا معاملہ کیسے سامنے آیا؟

دعا کے والد سید مہدی کاظمی کے مطابق ان کی تین بیٹیاں ہیں جس میں دعا سب سے بڑی ہے۔ 16 اپریل کی دوپہر ان کی بیٹی کوڑے کی دو تھیلیاں لے کرگھر کی بالائی منزل سے نیچے اتری اور اس کے بعد اپر اسرار طور پر لاپتہ ہوگئی۔

مہدی کاظمی نے اپنے طور پر بیٹی کو تلاش کیا جس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے، لیکن ان کے مطابق کراچی میں تحریک انصاف کے جلسے کے سبب پولیس مصروف تھی جس کے باعث ان کی بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جب تین روز گزر گئے تو انہوں نے جعفریہ ڈیزاسٹر سیل ک(جے ڈی سی) کے سربراہ ظفر عباس سے کراچی کے علاقے نمائش میں سحری کے وقت ملاقات کی اور انہیں اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔

بعد ازاں ظفر عباس نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی جس پر حکام نے بھی نوٹس لیا۔ یوں دعا کی گمشدگی کا معاملہ ہر خاص و عام کی زبان پر آگیا اور سوشل میڈیا پر دعا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تلاش کے لیے ٹرینڈز چلنے لگے۔اداکاروں، کھلاڑیوں اور سول سوسائٹی نے بھی دعا کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔

کیس میں ڈرامائی موڑ کیسے آئے؟

مہدی کاظمی کے مطابق انہیں واٹس ایپ پر پیغامات موصول ہوئے جس میں ان سےمبینہ طور پر تاوان طلب کیا گیا تھا۔ پیغامات پرمہدی کاظمی نے اپنی بیٹی سے بات کرانے کا کہا تو اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

اسی دوران جے ڈی سی سربراہ ظفر عباس کو حیدر آباد سے ایک کال آئی جس میں کہا گیا کہ انہیں معلوم ہے کہ لڑکی کہا ں ہے، جس پر انہوں نے مہدی کاظمی سے بات کرنے کا کہا، جب دو بارہ کال آئی تو پولیس نے کالر کی نشاندہی پر سانگھڑ میں چھاپہ مارا، جہاں سے ایک15 سالہ لڑکی کو بازیاب کرایا گیا جو کراچی کی ہی رہائشی تھی لیکن دعا نہیں تھی۔

بعد ازاں میڈیا پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تھی جس میں ایک لڑکی کو سوزوکی وین میں بیٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ پولیس نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ یہ لڑکی دعا ہی ہے جس پر مہدی کاظمی نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوٹیج رات کی ہے جب کہ ان کی بیٹی دوپہر میں لاپتہ ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ جو لڑکی فوٹیج میں دکھائی گئی وہ اس علاقے کی ضرور ہے لیکن وہ نوکری کے لیے نکلی تھی۔ یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ کیس الجھتا چلا گیا۔

اسی دوران ایک رمضان ٹرانسمیشن میں مہدی کاظمی اپنی اہلیہ کے ہمراہ گئے، جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کے اعلانات کے لیے مساجد کو درخواست کی تو کہا گیا کہ اس نام کا تو ہماری مساجد سے اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ لائیو نشریات میں اس دعوے کے بعدسوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔

ایک ہائی پروفائل کیس

جے ڈ ی سی کے سربراہ ظفر عباس کی بنائی گئی ویڈیو میں ارباب اختیار سے اپیل کی گئی تو حکام نے بھی تیزی دکھائی۔سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر دعا کے لیے جب آواز بلند ہوئی تو بھی دباؤ بڑھنے لگا۔

مہدی کاظمی کے مطابق اس خبر کے سوشل میڈیا پر چلنے سے ہی ادارے حرکت میں آئے۔پولیس نے لڑکی کی تلاش کے لیے مہدی کاظمی کی نشاندہی پر کچھ گھروں کی تلاشی بھی لی۔ علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کا بھی جائزہ لیا گیا۔

دوسری جانب دعا کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی جب سے لاپتہ ہوئی ہے وہ بے چین ہیں۔ انہوں نے اپیل کی تھی کہ جو بھی اسےلے گئے وہ اسے چھوڑ دیں اور والدین سے ملنے دیں۔

سولہ اپریل سے شروع ہونے والا معاملہ پیر کو اس اطلاع پر کہ دعا زہرا نے لاہور کے رہائشی سے نکاح کرلیا ہے۔ بظاہر ایک ڈراپ سین ہے۔ لیکن جب تک دعا زہرا بازیاب ہوکر کراچی پولیس کے حوالے نہیں کر دی جاتی اور وہ خود کوئی بیان نہیں دے دیتی، تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ معاملے کی اصل گتھیاں تب ہی سلجھ سکیں گی جب دعا کی بازیابی کی تصدیق قانون نافذ کروانے والے اداروں سمیت ان کے اپنے اہل خانہ بھی نہیں کردیتے۔

تاہم، دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کے کیس میں اگر کچھ مماثلت ہے، تو ان لڑکیوں کا کم عمر ہونااور کراچی سے لاپتہ ہونے کے بعد پنجاب کے شہروں میں موجود ہونا ہے اور سب سے اہم دونوں لڑکیوں کا سراغ ایک ہی دن ملنا ہے۔

XS
SM
MD
LG