رسائی کے لنکس

’آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل، مگر کام ابھی باقی ہے‘


پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ

دو سال قبل آٹھ جون 2014 کو کراچی ائیر پورٹ پر ایک دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستان کی فوج نے ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ 15 جون 2014ء کو شروع کیے گئے آپریشن کے بارے میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اس سے ناصرف قبائلی علاقوں میں حکومت کی عمل داری بحالی ہوئی بلکہ طالبان کے خوف کا بھی خاتمہ ہوا۔

اس موقع پر راولپنڈی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ آپریشن میں 4,304 مربع کلومیٹر علاقہ شدت پسندوں سے صاف کرایا گیا اور ان کے 992 ٹھکانے تباہ کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس آپریشن میں 3,500 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ اب تک پاکستان فوج کے 490 جوان مارے جا چکے ہیں۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ابھی ملک کے باقی حصوں میں دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے لیے ’کومبگ آپریشن‘ جاری ہیں اور جب تک ملک کو دہشت گردی سے پاک نہیں کر دیا جاتا یہ کارروئیاں جاری رہیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ فوج نے شدت پسندوں سے جدید ہتھیار برآمد کیے ہیں جو ان کے بقول افغانستان میں بین الاقوامی فوجیوں سے چھینے گئے تھے۔

اس آپریشن میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بعض علاقوں میں گھنے جنگلات تھے اور وادی شوال اور دتہ خیل غیرمعمولی بلندی پر واقع تھے۔

اس آپریشن میں ہزاروں خاندان بے گھر بھی ہوئے۔ عاصم باجوہ نے کہا کہ آپریشن کے باعث قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کو اس سال کے اواخر تک واپس اپنے گھروں میں بھیج دیا جائے گا۔

دو سال قبل آٹھ جون 2014 کو کراچی ائیر پورٹ پر ایک دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستان کی فوج نے ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس سے قبل ملک کی سیاسی قیادت طالبان سے مذاکرات میں شریک تھی اور انہیں بات چیت کے ذریعے پر تشدد کارروائیاں ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

پاکستان پر دیگر ممالک، خصوصاً امریکہ کی طرف سے بہت دباؤ تھا کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے کیونکہ اس کے بقول وہاں چھپے دہشت گرد افغانستان میں امریکی فوج اور افغان حکومت پر حملوں میں ملوث تھے۔

چین کا بھی کہنا تھا اس کے مشرقی صوبے سنکیانگ میں آباد ایغور آبادی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے بھی وہاں ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

آپریشن شروع ہونے کے بعد شمالی وزیرستان سے بہت سے شدت پسند خیبر ایجنسی میں جا چھپے جس کے بعد فوج نے خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے آپریشن کیے۔

عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا آپریشن شروع کرنے سے قبل افغان حکومت اور افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج کو اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا تاکہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان بھاگنے والے شدت پسندوں کو پکڑیں۔

عاصم باجوہ نے کہا کہ دنیا کو غیر ضروری الزام تراشی کی بجائے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو تسلیم کرنا چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہے۔

XS
SM
MD
LG