رسائی کے لنکس

چولہے کا دھواں صحت کے لیے نقصان دہ ہے


پاکستان کےاکثر دیہی علاقوں سمیت دنیا کی تقریبا نصف آبادی لکڑی یا اوپلے یا اسی طرح کی کوئی اور چیز بطور ایندھن استعمال کرتی ہے۔ جس سے نہ صرف جنگلات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہاہے بلکہ فضائی آلودگی بھی بڑھی رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی ایک رپورٹ سے پتا چلاتھا کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایک صحت افزا مقام زیارت میں، جہاں موجود صنوبر کے جنگل کو، جس کا شمار اس خوبصورت اور قیمتی درخت کے چند بڑے جنگلات میں کیا جاتاہے، ان لوگوں سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہاہے جو گھر کا چولہا جلانے کے لیے اسے کاٹ رہے ہیں۔

ایندھن کے حصول یا تجارتی مقاصد کے لیے جن ممالک میں بڑے پیمانے پر جنگلات کاٹے گئے ہیں ان میں انڈونیشیا بھی شامل ہے، جہاں جنگلات کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ایک مہم چلائی جارہی ہے۔

حال ہی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے دو امریکی سائنس دانوں کو، اس شعبے کا ایک بڑا انعام ’ٹیلر پرائز‘ ملا ہے۔ ان کی تحقیق کا موضوع ایندھن کے جلائے جانے سے ماحول اور لوگوں کی صحت کو پہنچنے والا نقصان ہے۔ انہوں نے اس کا حل بھی پیش کیا ہے۔

کرک سمتھ کا تعلق برکلے میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے ہے۔ وہ 1980 کی دہائی میں براعظم ایشیا کے کچھ دیہی علاقوں میں ایندھن کے استعمال پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ میں نے وہاں گھروں میں بڑے پیمانے پر دھواں دیکھ کر سوچا کہ صحت پر اس کے مضر اثرات پر ضرور کوئی تحقیق کی گئی ہو گی۔ لیکن مجھے ایسی کوئی تحقیق نہیں ملی۔

بعدازاں ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ گھر میں کھانا پکانے سے اتنا ہی دھواں پیدا ہوسکتا ہے جتنا ایک ہزار سگریٹوں کے جلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اس دھوئیں کی وجہ سے تقریبا 20 لاکھ افراد، خصوصی طور پر خواتین اور بچے، ہر سال قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں میں اس ایندھن کا استعمال عالمی پیمانے پر موسمی تبدیلیوں میں بھی اہم کردار ادا کررہاہے۔

اس سال’ ٹیلرپرائزجیتنے والے دوسرے سائنس دان جان سین فیلڈ ، جن کاتعلق کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ہے، کہتے ہیں کہ دنیا کے ایک خطے میں فضائی الودگی بڑھنے سے دنیا کے دوسرے خطوں کی فضا بھی متاثر ہوتی ہے۔

ان کی تحقیق کے مطابق براعظم ایشیا کی فضائی الودگی بحر الکاہل پار کرکے امریکہ کو متاثر کر سکتی ہے۔ اور کبھی کبھی بحر اوقیانوس پار کرکے یورپ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

سٹین فیلڈ کہتے ہیں کہ جنوبی نصف کرہ ارض بھی اسی عمل سے گزرتا ہے۔ اور دونوں جنوبی اور شمالی خطے ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ جس کے علاوہ اس عمل میں قدرتی اور مصنوعی کیمیائی مرکبات دونوں ہی شامل ہیں۔

ان سائنس دانوں کے مطابق ماحولیاتی تحقیق میں احتیاط بہت ضروری ہے۔اسی لیے کرک سمتھ، چین، بھارت، اور گوئٹے مالا سمیت کئی دوسرے ملکوں میں گھروں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور لوگوں کی صحت پر اس کے طویل مدتی اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تحقیق کم دھواں خارج کرنے والے چولہوں پر بھی جاری ہے۔

سمتھ کے مطابق یہ ٹکنالوجی خاص طور پر کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس کی مدد سے عالمی سطح پر فضائی الودگی میں کمی لائی جا سکے گی۔

XS
SM
MD
LG