رسائی کے لنکس

متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی مزدوروں کی مشکلات


غیر ملکی مزدور دبئی آئیڈل میں موسیقی سے لطف اندوز ہورہے ہیں
غیر ملکی مزدور دبئی آئیڈل میں موسیقی سے لطف اندوز ہورہے ہیں

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہےکہ عالمی مالیاتی بحران شروع ہونے کے بعد سے، متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے غیرملکی مزدوروں کے حالاتِ زندگی بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔

8 اکتوبر کو دبئی کے مزدور کیمپوں میں رہنے والوں کے لیے موسیقی کا سالانہ مقابلہ منعقد ہوا۔ اس تقریب سے ایک مہینے قبل دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے بلومبرگ نیوز ایجنسی سے کہا کہ ان کی امارت مالی مشکلات سے نکل آئی ہے اور اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر چیلنج نہ ہوں تو پھر زندگی میں لطف ہی کیا۔ لیکن متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے بیشتر غیر ملکی مزدور ان کے بیان سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ان مزدوروں کی اکثریت بڑے مشکل حالات میں زندہ ہے ۔یہ لوگ بہت کم مزدور ی پر شدید مشقت والے کام کرتے ہیں، پُر ہجوم جگہوں میں سوتے ہیں اور اپنی ساری کمائی اپنے خاندان کو بھیج دیتے ہیں۔

اس سال کا دبئی آئیڈل کا مقابلہ جیتنے والےمحسن خان کو جب نقد انعام اور نیا ٹیلیویژن ملا، تو انھوں نے کہا کہ وہ سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو بتائیں گے کہ وہ انہیں کیا بھیج رہے ہیں۔ ’’اب میں انہیں بتاؤں گا کہ میں نے یہ مقابلہ جیت لیا ہے۔ انہیں ایک نیا ٹیلیویژن ملنے والا ہے۔‘‘

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال سے کچھ مہینے پہلے جب دبئی کی اقتصادی مشکلات شروع ہوئیں، اس کے بعد سے مزدوروں کے گھرانوں کو شاذ و نادر ہی کوئی خوشخبری ملتی ہے ۔لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں اور بہت سے لوگ کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں کیوں کہ جن لوگوں نے انہیں ملازم رکھا ہوا تھا وہ اقتصادی مشکلات کہ وجہ سے ملک چھوڑ گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں کفالہ سسٹم رائج ہے جس کے تحت غیر قانونی طور پر کمپنیاں مزدوروں کے پاسپورٹوں پر قبضہ کر لیتی ہیں اور ان کی مزدوری ادا نہیں کرتیں۔

انسانی حقوق کی کئ تنظیموں کے عہدے داروں نے اس سسٹم پر سخت تنقید کی ہے۔ ان میں ہیومن رائٹس واچ کے سمیر مسقطی بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات اور بھی زیادہ اس وجہ سے خراب ہوتے ہیں کیوں کہ بہت سے مزدور ریکروٹمنٹ کی غیر قانونی فیسیں ادا کرنے کے لیے بھاری شرح سود پر قرضہ لے لیتے ہیں۔ مسقطی کہتے ہیں’’ملازمتیں ختم ہو جانے کی وجہ سے یہاں بہت سے مزدور بالکل بے آسرا ہو جاتےہیں۔ مزدوروں میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ بہت سے مزدور سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح قرض دینے والے بھارت میں یا جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں میں، ان کے گھرانوں کو پریشان نہیں کریں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مزدوروں کی ہلاکت کے بعد بھی، قرض خواہ ان کے گھرانوں کی جان نہیں چھوڑتے۔‘‘

مسقطی کہتےہیں کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ غیر ملکی مزدور جن حالات میں یہاں لائے جاتےہیں ، بظاہر متحدہ عرب امارات کی حکومت کو ان کو بدلنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ اقتصادی انحطاط کی وجہ سے بھی، حالات میں بہتری مشکل ہو گی ۔

تا ہم، بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ کمپنیوں کے مالکان اپنے ملازمین کی حالت کے ذمہ دار ہیں۔ ایڈاپٹ اے کیمپ کی بانی، سحر شیخ کہتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت اپنے غیر ملکی کارکنوں کی حفاظت کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ ’’میں سمجھتی ہوں کہ دبئی کی حکومت اپنے قوانین پر زیادہ سختی سے عمل کر رہی ہے ۔ انسپیکشن کمیٹیاں لیبر کیمپوں کا معائنہ کرتی ہیں اور اگر حالات ٹھیک نہ ہوں تو مالکان پر جرمانے کر دیے جائے ہیں۔حکومت کی طرف سے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘

متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی مزدوروں کی مشکلات
متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی مزدوروں کی مشکلات

گذشتہ چار سال سے سحر شیخ باقاعدگی سے کیمپوں کا دورہ کرتی ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے رہنے کے حالات بہتر بنائے جائیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ جب سے دبئی میں قرضوں کی ادائیگی کے مسائل کا اعلان ہوا ہے، ان کا کام کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔وہ کہتی ہیں’’پہلے مجھے اپنا کام بہت اچھا لگتا تھا۔ اچھا تو اب بھی لگتا ہے لیکن پہلے مجھے اس میں دلی سکون ملتا تھا۔ ہم مزدوروں کے لیے انگریزی کی کلاسیں کرتے تھے، انہیں حفظان صحت کی تربیت دیتے تھے اور بہت سی چیزیں سکھاتے تھے۔ مزدوروں کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ اب انہیں دیکھتی ہوں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ۔ اب میرا اہم ترین کام ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے ۔ اب ہر طرف بھوک کا دور دورہ ہے۔ ان لوگوں کو میں اس حال میں دیکھتی ہوں تو دل بھر آتا ہے۔‘‘

اپنے تجربے کی روشنی میں سحر شیخ کہتی ہیں کہ صرف بیس فیصد کیمپ ایسے ہیں جن کی حالت اچھی کہی جا سکتی ہے ۔ متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی تعمیراتی مزدوروں کے ایک غیر جانب دار سروے کے مطابق، مزدوروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ آ ج کل وہاں جو حالات ہیں، وہ پھر بھی ان کے اپنے ملکوں کے حالات سے بہتر ہیں۔

XS
SM
MD
LG