رسائی کے لنکس

برطانوی انتخابات پر ایران اور افغانستان کی صورتحال کے اثرات


جمعرات کو برطانیہ کے لوگ ایک نئی حکومت منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالیں گے ۔ برطانیہ کے ہزاروں فوجی افغانستان میں لڑ رہے ہیں اور ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ انتخاب میں ایک اور مسئلہ جو زیرِبحث آئے گا وہ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ایران کے خطرے کا ہے ۔اب تک برطانیہ کے انتخاب کا نتیجہ بڑی حد تک واضح تھا لیکن سیاسی منظر پر ایک نو وارد کی آمد سے برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے ۔ جیتنے والا فرد ایک ایسے ملک پر حکومت کرے گا جو جنگ میں مصروف ہے ۔ برطانیہ کے دس ہزار فوجی افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً تین سو تک پہنچ چکی ہے ۔ عوام میں جنگ کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ تینوں پارٹیاں اس مشن سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔

موجودہ وزیرِ اعظم گورڈن براؤن جانتے ہیں کہ ووٹرز ایک دور دراز ملک میں اتنی مہنگی لڑائی کو پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ ان کا اصرار ہے کہ برطانوی فوجی برطانیہ کی حفاظت کے لیے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔’’ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ہم دنیا میں دہشت گردوں کو کوئی علاقہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیوں کہ وہ یہ علاقہ برطانیہ پر حملے کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 6 مئی کے بعد قیادت میں تبدیلی آ سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت افغان حکمت عملی پر نظر ِ ثانی کرے۔ ایلکس نئیل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں ایشیا پروگرام کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس بات پر از سرِ نو غور کیا جائے گا کہ کیا برطانیہ پاکستان اور افغانستان کے اندر اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکتا ہے، بلکہ شاید یہ سوال بھی اٹھایا جائے گا کہ کیا برطانیہ اپنی بساط سے زیادہ اہم رول جاری رکھ سکتا ہے ۔


برطانیہ میں پہلی بار امیدواروں کے درمیان بحث ٹیلیویژن پر دکھائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبرل ڈیموکریٹس کے نِک کلیگ کو، جو اب تک غیر اہم تھے، ایسے انتخاب میں جس میں سخت مقابلہ ہو رہا ہے، حکومت کی تشکیل میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ۔ افغانستان کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ یا تو ہم اور زیادہ وسائل فراہم کریں یا وہاں سے مکمل طور پر نکل آئیں۔

فوری مسئلہ تو افغانستان کا ہے لیکن لمبے عرصے کا چیلنج ایران ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ، برطانیہ نے خاصے تند و تیز بیانات دیے ہیں اور ایران کا موازنہ ایک دشمن ملک کی حیثیت سے شمالی کوریا سے کیا ہے ۔کلیگ کی پارٹی کے لبرل ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ برطانیہ خود اپنے نیوکلیئر ہتھیار بتدریج ٹھکانے لگا دے لیکن وزیرِ اعظم گورڈن براؤن سمیت ان کے حریف کہتے ہیں کہ اس طرح تہران کو بالکل غلط پیغام ملے گا۔

افغانستان میں برطانوی فوجی
افغانستان میں برطانوی فوجی

گورڈن براؤن کہتے ہیں کہ ذرا اس خطرے کا تصور کیجیئے اگر شمالی کوریا، ایران اور دوسرے ملکوں نے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کر لیے اور ہم اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں سے دستبردار ہو گئے ۔

اس کے جواب میں لبرل ڈیموکریٹ امید وارنِک کلیگ کہتے ہیں’’یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔ خطرہ تو اس میں ہے کہ ہم بہت بڑی رقم، جو شاید ہمارے پاس ہے ہی نہیں، نیوکلیئر ہتھیاروں کے ایسے سسٹم پر خرچ کردیں، جس سے ہماری بدلتی ہوئی دنیا میں، ہمیں یقیناً کوئی مدد نہیں ملے گی۔ ہمیں نئے قسم کے خطرات کا سامنا ہے اور ایسے فوجی ماہرین کی تعداد روز افزوں ہے جو کہہ رہے ہیں کہ مختلف اور بہتر متبادل موجود ہیں۔‘‘

اگلی پارلیمنٹ کے لیے اتفاقِ رائے انتہائی اہم ہوگا۔ اگر کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملی تو کئی پارٹیاں مِل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے مجبور ہو ں گی۔تو اگر کوئی مخلوط حکومت بنی اور اس میں امن پسند لبرل ڈیموکریٹس کو بادشاہ سازی جیسے اختیارات حاصل ہوگئے تو کیا ایران کے بارے میں برطانیہ کی پالیسی تبدیل ہو جائے گی۔ م

محمد کمالی، ایران کے خلاف فوجی کارروائی اور پابندیوں کی مخالف تنظیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’خارجہ پالیسی میں جب ایران کا سوال پیدا ہوتا ہے تو تینوں پارٹیاں مداخلت پر مبنی پالیسیوں پر کار بند ہیں ۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں عراق کی جنگ مِلی اور افغانستان میں اور دنیا میں دوسرے مقامات پر جنگیں ہوئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لبرل ڈیموکریٹس بھی جن کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ نسبتاً نرم دِل لوگ ہیں، ویسی ہی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں۔ انہیں پریشانی یہ ہے کہ کہیں ان کے مخالف قدامت پسندوں کے مقابلے میں انہیں کمزور نہ سمجھ لیا جائے ۔‘‘

روایتی طور پر برطانیہ کو اس بات پر فخر رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی شعبے میں اپنی بساط سے زیادہ سرگرم رہا ہے ۔ لیکن اس کی معیشت سرکاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔ برطانیہ کے اگلے لیڈر کے نظریات اور عقائد کچھ ہی کیوں نہ ہوں انہیں جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ملک کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کے تعین میں اصل اہمیت معیشت کی ہے ۔

XS
SM
MD
LG