رسائی کے لنکس

برطانیہ میں عام شہریوں کی نگرانی کا سخت قانون منظور


نئے قانون کے تحت برطانوی ملکی سلامتی کے اداروں ،خفیہ ایجینسیوں اور پولیس کے علاوہ اڑتالیس سرکاری اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوجائےگا کہ وہ ایک عام شہری کی تمام آن لائن سرگرمیوں اور دیگر معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔

برطانوی پارلیمان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے ایک حصے کے طور پر نگرانی کا ایک نیا قانون منظور کیا گیا ہے۔

اس قانون کے تحت سرکاری ادارے عام شہریوں کی آن لائن معلومات پر نظر رکھ سکیں گے اور ان کے نجی آن لائن ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے اور اسے استعمال کرنےکے قابل ہو جائیں گے۔

برطانوی حکومت کی ویب سائٹ گوو ڈاٹ یوکے کے مطابق تفتیشی اختیارات کے قانون کو سرکاری طور پر 'انویسٹی گیٹری پاورز بل' کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قانون منظوری کے آخری مرحلے میں ہے اور شاہی منظوری حاصل کرنے کے بعد یہ بل باضابطہ طور پر قانون بن جائے گا۔

برطانوی وزرات داخلہ کا کہنا ہےکہ نئے بل کی متعلقہ دفعات ملک کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ نگرانی کا اختیار دیتی ہیں۔

قانون کے تخت برطانیہ میں ہر شہری کی تمام انٹرنیٹ براوزنگ ہسٹری کو ایک سال کے لیے محفوظ کیا جائےگا اور پولیس اور سلامتی اداروں کے حکام کسی بھی وارنٹ کے بغیر ان ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔

نئے قانون کے تحت ملکی سلامتی اداروں ،خفیہ ایجینسیوں اور پولیس کے علاوہ برطانوی صحت عامہ این ایچ ایس اور محکمہ ٹیکس کے انسپکٹر سمیت کل اڑتالیس سرکاری اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوجائےگا کہ وہ ایک عام شہری کی تمام آن لائن سرگرمیوں اور دیگر معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔

عام شہریوں کی نگرانی کے قانون کا مسودہ برطانیہ کی وزیر اعظم اور اس وقت کی وزیر داخلہ تھریسا مئے کی طرف سے نومبر 2015 میں شائع کیا تھا ،جس پر ہاوس آف کامنز کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی، انٹیلی جینس اور سیکیورٹی کمیٹی اور دونوں ایوانوں کی ایک مشترکہ کمیٹی کی طرف سے غور کیا گیا ہے۔

برطانیہ کے دونوں ایوان ہاوس آف لارڈز اور دارالعوام میں قانونی مسودے کو 12 ماہ سے زائد عرصے تک بحث کے بعد منظور کیا گیا ہے۔

تاہم نئے قانون کی منظوری سے پہلے ہی برطانیہ میں بہت سےحلقے اس کی مخالفت کررہے تھے خاص طور پر شہری حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں نےعام شہریوں کی نگرانی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شہری آزادی کے تحفظ اور انسانی حقوق کے لیےکام کرنے والے برطانیہ کے معروف ایڈوکیسی گروپ لبرٹی کا کہنا ہے کہ یہ قانون انسانی حقوق کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔ نیا قانون حکومت کو لوگوں کی ذاتی ای میل ،ٹیکسٹ پیغامات اور فون کالز کی نگرانی کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کہاں ہیں ،کس سے بات کررہے ہیں اور کیا بات کررہے ہیں اور یہ سب کسی پر شک کی بنیاد پر نہیں کیا جارہا ۔

قانون کے تحت برطانیہ میں انٹرنیٹ سروسز مہیا کرنے والی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کو اپنے صارفین کی آن لائن معلومات جمع کرنے اور حکام کو سونپنے کا پابند بنایا گیا ہے اور یہ تمام معلومات لوگوں کی زندگی کی ایک پروفائل بنانے کے لیے استعمال کی جائیں گی جس تک صرف حکومت کی رسائی نہیں ہوگی۔

تنظیم کا موقف ہے کہ غیر متعلقہ معلومات کے ساتھ بڑے پیمانے پر نگرانی کی معلومات سلامتی کے اداروں کے کام میں اضافہ کرے گی جو انھیں اصل مجرموں کی تلاش سے غافل کرسکتی ہے۔

لبرٹی کے عملے کے رکن ڈیوڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ '' لبرٹی اور اس کے عملے کے ارکان اس کے خلاف اس دن سے لڑ رہے ہیں،جب پچھلے سال اس قانون کا مسودہ شائع کیا گیاتھا ،اسے روکنے کے لیے عوامی آگاہی کی ایک مہم چلائی گئی تھی اور ایک آن لائن دستخطی مہم شروع کی ہےجس پر ایک لاکھ سے زائد افراد نے دستخط کئے ہیں''

منگل کی صبح تک نگرانی کے قانون کی منسوخی کی آن لائن پٹیشن پر ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زائد لوگوں نے دستخط کئے ہیں جبکہ برطانوی قانون کے مطابق ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی حمایت حاصل کرنے والی کسی بھی پٹیشن کو دارالعوام میں بحث کے لیے زیر غور لایا جاسکتا ہے۔

ڈیوڈ نے کہا کہ ''اب یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوچکا ہے اور فی الحال ہم اپنے مقدمے کی تیاری کے لیے مخلتف قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں اور نئے قانون کی ان دفعات کو دیکھ رہے ہیں جسے ہم قانونی طور پر چیلنج کرسکتے ہیں اور اس کا ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ''۔

XS
SM
MD
LG