رسائی کے لنکس

باغی جنگ بندی معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں، یوکرین کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز اتوار سے ہوا اور بظاہر بیشتر علاقوں میں معاہدے پر عمل درآمد پر ہوتا دکھائی دیتا ہے ماسوائے ایک قصبے کے جہاں رواں ماہ سب سے زیادہ لڑائی ہوئی۔

یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ روس کے حمایت یافتہ باغی مشرقی یوکرین میں لڑائی کو ختم کرنے کے لیے کئے گئے عارضی جنگ بندی معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کر رہیں۔

فوج نے پیر کو کہا کہ گزشتہ دنوں کی نسبت دیبالتسیو کے قصبے پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں اس کے بقول باغی ہر قسم کے ہتھیا راستعمال کر رہے ہیں۔

خبررساں اداارے ’رائیڑز‘ کے ایک نامہ نگار نے دیبالتسیو سے 10 کلومیٹر دور واقع ایک قصبے سے شہر کے گرد و نواح میں بھاری ہتھیاروں کی استعمال اور ہر 10 سیکنڈ کے بعد دھماکوں کی اطلاع دی ہے۔

مشرقی یوکرین میں اس ماہ ہونے والی زیادہ تر لڑائی دیبالتسیو میں ہوئی جہاں خیال کیا جارہا ہے کہ ہزاروں یوکرینی فوجی محصور ہیں۔

یوکرین کے مشرقی علاقے میں لڑائی کے خاتمے کے لیے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت محاذوں سے بھاری ہتھیاروں کا پیچھے ہٹانے کا کام پیر کو شروع ہونا ہے۔

جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز اتوار سے ہوا اور بظاہر بیشتر علاقوں معاہدے پر عمل درآمد پر ہوتا دکھائی دیتا ہے ماسوائے ایک قصبے کے جہاں رواں ماہ سب سے زیادہ لڑائی ہوئی۔

یوکرین کی فورسز سے برسر پیکار روس نواز باغیوں نے اتوار سے شروع ہونے والے عارضی جنگ بندی معاہدے میں یہ کہتے ہوئے ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ بقول ان کے اس معاہدے کی شرائط کا نفاذ دیبالستیو پر نہیں ہوتا جہاں اس ماہ زیادہ تر لڑائی ہوتی رہی ہے۔

یہ قصبہ روسی سرحد کے قریب واقع ہے۔

باغیوں کے کمانڈر ایڈورڈ بسیورن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ علیحدگی پسند جنگجو دیبالستیو میں عارضی جنگ بندی معاہدے پر عمل نہیں کریں گے، جہاں خیال کیا جا رہا ہے کہ ہزاروں یوکرینی فوجی محصور ہیں۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز نے ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ انھوں نے متنازع قصبے کو "اپنا علاقہ" قرار دیا۔

جبکہ روسی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بسیورن کے حوالے سے بتایا کہ عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت "توپوں کے خاموش ہونے کے 48 گھنٹوں میں بھاری ہتھیاروں کو پیچھے ہٹانے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اسی (شرط) سے ہم رہنمائی حاصل کریں گے"۔

اتوار دیر گئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کا خیر مقدم کیا۔

تاہم انھوں نے دیبالستیو میں جاری جارحانہ کارروائیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور انھوں نے اپنا یہ مطالبہ ایک بار پھر دہرایا کہ تمام فریق اس عارضی جنگ بندی معاہدے کی پابندی کریں۔

گزشتہ ہفتے طے پائے جانے والے عارضی جنگ بندی معاہدے کی ثالثی کرنے والے چار رہنماؤں، روس کے صدر ولادیمر پوٹن، جرمن چانسلر انگیلا مرخیل، فرانسیسی صدر فرانسواں اولاند اور یوکرین کے صدر پیٹرو پورو شنکو نے ایک کانفرنس کال میں اتفاق کیا کہ دیبالستیو میں بھی جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔

گزشتہ ماہ عارضی جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکام ہو جانے کے بعد تباہ حال شہر کو روزانہ لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔

بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں طے پائے جانے والے معاہدے کے تحت محاذوں سے بھاری ہتھیاروں کو پیچھے ہٹائے جانے کا عمل پیر کو شروع ہو گا۔

اس سے قبل ہفتہ کو صدر اوباما نے پورو شنکو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے تمام فریقوں پر طے کردہ ضابطہ کار کے مطابق تشدد بند کرنے پر زور دیا۔

انھوں نے فائر بندی پر عمل سے پہلے کئی گھنٹوں کے دوران ہونے والی لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ صدر اوباما نے جرمن چانسلر انگیلا مرخیل سے فون پر گفتگو میں ان سے بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا۔

دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی ہفتہ کو اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ٹیلی فون پر بات چیت میں فائر بندی پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔

XS
SM
MD
LG