رسائی کے لنکس

سولہ ہزار یوکرینی بچوں کی ملک بدری: اب تک صرف 324 کی واپسی ہوئی ہے


کییف ،یوکرین کے ایک زیر زمین ہسپتال میں ،جنگ زدہ بچے،مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ ختم کرو
اے پی فوٹو
کییف ،یوکرین کے ایک زیر زمین ہسپتال میں ،جنگ زدہ بچے،مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ ختم کرو اے پی فوٹو

روس کی یوکرین میں جاری جنگ کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیاہے۔ اس دوران جنگ کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں اور ہزارہا افراد ،خواتین ،بچوں اور بوڑھوں کی ہلاکتوں ،زخمی ہونے اور گھر بار تباہ ہونے کی داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں اور برسوں تک آتی رہیں گی جب کہ جنگ کے ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

اس جنگ کا سب سے تکلیف دہ پہلو وہ بچے ہیں جو جنگ سے بری طرح متاثر ہوئے۔ان گنت بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ،بہت سے یتیم ہو گئے اور کثیر تعداد میں زخمی ہو ئے ۔ان میں سے کچھ کا علاج کیا گیا اور کچھ ابھی تک لاپتہ ہیں۔

یوکرینی حکام کے مطابق 16 ہزار سے زائد یوکرینی بچوں کو زبردستی روس یا روس کے زیر کنٹرول یوکرینی علاقوں میں لے جایا گیا ہے۔

24 مارچ تک، ان میں سے صرف 324 بچے واپس آئے تھے، جن میں اولینا ڈوڈنک کا بیٹا، اینڈری بھی شامل ہے۔

اینڈری کی ماں نے اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے کہا کہ وہ کارکیو علاقے کے شہر ایزییم کی رہنے والی ہے ۔ گزشتہ اپریل میں جب روسی فوجیوں نے شہر پر قبضہ کیا تواس کا 17 سالہ بیٹا اینڈری گولہ باری کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوگیا تھا۔

یوکرین پر روسی حملے کے بعد پولینڈ کی سرحد کی جانب جانے والی گاڑیوں کی قطار اور دو بچے پییدل چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یکم مارچ 2أ22
یوکرین پر روسی حملے کے بعد پولینڈ کی سرحد کی جانب جانے والی گاڑیوں کی قطار اور دو بچے پییدل چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یکم مارچ 2أ22

اسے سرجری کے لیے ایک روسی فیلڈ ہسپتال لے جایا گیا ۔

اسے کمرے میں لایا گیا، اور ڈرپ لگائی گئی۔ ایک ڈاکٹر نے کہا، ’’ہم اس کا آپریشن کریں گے، اور تم کل آ کر اسے دیکھ سکو گی ۔اگلے دن، جب وہ پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ اس کا بیٹا ماسکو میں ہے۔

ڈوڈنک نے بتایا کہ وہ روسی ڈاکٹروں سے ہر روز اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھتی تھی۔ لیکن اسے ہر وقت بتایاجاتا کہ کوئی اطلاع نہیں ہے ۔

اس نے روتے ہوئے ان سے فریاد کی کہ خدا کا واسطہ مجھ پر رحم کرو ۔ تمہارے بھی بچے ہوں گے ۔ مجھے کم از کم یہ تو بتادو کہ میرا بچہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔

ڈیڑھ ماہ بعد اس کے موبائل فون پر ایک پیغام آیا۔

یہ ایک اسکرین شاٹ تھا جو پہلے ہی انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکا تھا۔ انڈری کی ایک تصویر کے ساتھ تفصیلات درج تھیں کہ یہ یوکرینی بچہ ماسکو کے اسپتال میں داخل ہےاور شدید زخمی ہے، اور نیچے اسپتال کا پتہ دیا گیا تھا۔

وہ اپنے بچے کی تلاش میں فوراً ماسکو چلی گئی ۔

بچوں کے حقوق کے لیے یوکرین کے صدر کے کمشنر کا کہنا ہے کہ اکثر والدین کے لیے روس سے کسی بچے کو حاصل کرنے کا واحد آپشن یہ ہوتا ہے کہ وہ خود اس کے پاس آئیں۔

ان والدین کو ، 100فی صد یقین نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس آئیں گے۔

یوکرینی حکام کے مطابق 16 ہزار سے زائد یوکرینی بچوں کو روس یا روس کے زیر کنٹرول یوکرینی علاقوں میں زبردستی ترک وطن کر نے پر مجبور کیاگیا ہے۔

ہمیں ان بچوں کے بارے میں مناسب تعداد میں درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ درخواستیں بعض اوقات والدین، دیگر رشتہ داروں، مقامی حکام، یا محض ان عینی شاہدین کی طرف سے آئیں جن کے پاس بچے کی ملک بدری یا جبری منتقلی کی بارے میں حقیقی معلومات تھیں۔

روسی حکام اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ وہ یوکرینی علاقوں سے بچوں کو باہر لے جاتے ہیں۔ لیکن وہ اسے ملک بدری نہیں کہتے۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ بچوں کو فوجی کارروائیوں کے خطرے سے بچانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔

حالانکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری کیےہیں ، ان پر الزام ہے کہ وہ یوکرین سے بچوں کی غیر قانونی بے دخلی اور منتقلی کے ذاتی طور پر ذمہ دارہیں۔

آمرانہ حکومتوں کا مطالعہ کرنے کے لیے وقف ،پولینڈ کی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے ایک گروپ ،پائلکی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر میگڈالینا گاون کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ انتہائی اہم ہے۔یہ کیس خاص طور پر اہم ہے کیونکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ ہے۔

اولینا ڈوڈنک اپنے بیٹے کو ماسکو سے واپس لانے میں کامیاب ہو گئیں اور یوکرین کے رضاکاروں نے عارضی تحفظ تلاش کرنے میں ان کی مدد کی۔

لیکن یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ اب تک انڈری جیسے 400 سے بھی کم بچے واپس آئے ہیں۔

وی او اے نیوز

XS
SM
MD
LG