رسائی کے لنکس

افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں 13 فی صد کمی: اقوام متحدہ 


صوبہ سمنگان کے دارالحکومت، ایبک میں ہونے والے دھماکے کا ایک منظر (فائل)
صوبہ سمنگان کے دارالحکومت، ایبک میں ہونے والے دھماکے کا ایک منظر (فائل)

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں اس سال کے پہلے نصف میں شہری ہلاکتوں میں 13 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ سن 2012ء کے بعد یہ شہری ہلاکتوں کی سب سے کم تعداد ہے۔ اس کی بڑی وجہ امریکہ کے زیر قیادت اتحادی افواج اور داعش کی کارروائیوں میں کمی کو قرار دیا جا رہا ہے۔

پیر کے روز افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) نے نصف سال کی رپورٹ جاری کی ہے کہ جس کے مطابق، اس عرصے میں تقریباً 3500 شہری ہلاک ہوئے۔ ان میں 1282 شہری طالبان اور سرکاری سیکیورٹی فورسز کی جھڑپوں کی زد میں آئے۔

مجموعی طور پر پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں یہ کمی 13 فی صد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سن 2012ء کے بعد اس قدر کمی دیکھنے میں آئی ہے.

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اس کمی کو خوش آئند قرار دیا اور کہا ہے کہ اس کی بڑی وجہ بین الاقوامی فورسز اور داعش کی افغانی شاخ کی کارروائیوں میں کمی قرار دی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کُل ہلاکتوں میں سے 23 فی صد شہری ہلاکتوں کی ذمہ دار افغان قومی سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں ہیں، جن میں نو فی صد اضافہ ہوا ہے۔

اس سال کے پہلے چھ ماہ میں افغان فضائیہ کے حملوں میں پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا۔ انہیں حملوں کی وجہ سے بچوں کی زیادہ تعداد ہلاک ہوئی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے 58 فی صد شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت مخالف فورسز کو ٹھہرایا ہے۔ ان میں سے جو 1473 شہری زخمی یا ہلاک ہوئے، ان کی ذمہ داری طالبان کے حملوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کا تناسب 43 فی صد ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ ڈیبرا لیونز نے امریکہ طالبان کے حوالے سے متحارب فریقوں سے کہا ہے کہ وہ اس تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں تمام فریقوں پر زور دیتی ہوں کہ وہ اپنی کارروائیوں کو روک دیں، تاکہ افغان عوام کو جن خطرناک حالات کا سامنا ہے، ان سے انہیں نجات ملے۔ اس خوںریزی کو ختم کرنے کے لیے وہ فیصلہ کن قدم اٹھائیں اور مذاکرات کی میز پر آئیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان مسلح تنازعے میں براہ راست یا بلا واسطہ عورتیں اور بچے مسلسل شکار ہو رہے ہیں۔ یہ تعداد کل شہری ہلاکتوں کا 40 فی صد سے زیادہ بنتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس لیے یہ اور بھی لازم ہے کہ تشدد میں کمی لائی جائے۔

امریکہ اور اقوام متحدہ کے اندازے کے بر عکس افغان حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان امریکہ امن معاہدے کے بعد پر تشدد حملوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ان جنگجو حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہل کار اور افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ طالبان بھی افغان حکام کے اس موقف کی تردید کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG