رسائی کے لنکس

ہتھیاروں کی تجارت سے متعلق اقوام متحدہ میں مذاکرات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی عالمی تجارت کو ضابطے میں لانے کے لیے ممکنہ تاریخی معاہدے پر اقوام متحدہ کے مذاکرات اس ہفتے دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔

اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی عالمی تجارت کو ضابطے میں لانے کے لیے ممکنہ تاریخی معاہدے پر اقوام متحدہ کے مذاکرات اس ہفتے دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔

گزشتہ سال جولائی میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بات چیت امریکہ، روس اور چین کی طرف سے اس معاملے پر مزید وقت طلب کیے جانے کے بعد ناکام ہو گئی تھیں لیکن پیر سے اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں بات چیت پھر شروع ہو رہی ہے۔

ہتھیاروں کی تجارت پر کنٹرول کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس سے متنازع اور لڑائی والے علاقوں تک ہتھیاروں کی غیر قانونی رسائی کو روکا جا سکے۔

دنیا میں ہتھیار بنانے والے سب سے بڑے ملک امریکہ نے جمعہ کو کہا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے کی مخالفت کرتا ہے جس میں گولہ بارود (پر پابندی) شامل ہو کیوں کہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر مالی اور انتظامی بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے ایک ایسے معاہدے پر زور دیا ہے جس میں گولہ بارود کی فروخت کو ضابطے میں لانا شامل ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ امریکہ بھی ہتھیاروں کی تجارت پر نظر رکھنے کے لیے ایک موثر معاہدے کے لیے پرعزم ہے لیکن اُن کا ملک صرف ایسے معاہدے پر متفق ہو گا جس میں روایتی ہتھیاروں کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی کے معاملے کو حل کیا جائے ’’ایسا معاہدہ جو امریکہ میں اسلحے کی مقامی تجارت یا امریکی برآمدات کی بات کرے گا‘‘ اسے امریکہ تسلیم نہیں کرے گا۔

انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعلیٰ عہدیدار فرینک جنوزی کہتے ہیں کہ روایتی ہتھیاروں کی بغیر کسی رکاوٹ کے تجارت پانچ لاکھ سے زائد اموات، لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے اور دیگر مسائل کی وجہ بنی۔
XS
SM
MD
LG