رسائی کے لنکس

لیبیا کے ہوائی اڈے پر حملے میں 141 افراد ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لیبیا میں جمعے کے روز اس وقت کم ازکم 141 افراد ہلاک ہوگئے جب ایک مضبوط عسکری کمانڈر خلیفہ ہفطارکی لیبین نیشنل آرمی نے ملک کے جنوبی حصے میں واقع ایک ہوائی اڈے پر حملہ کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر فوجی تھے۔

ملیشیاء کے ترجمان احمد المسماری نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت سے وفاداری رکھنے والے ایک عسکری گروپ نےبراک الشتی ایئر بیس پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب فوجی ایک پریڈ ختم ہونے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ وہ غیر مسلح تھے اور ان میں سے زیادہ تر ہلاک ہوگئے۔

حملے کا نشانہ بننے والوں میں ایسے عام شہری بھی شامل تھے جو یا تو ہوائی اڈے پر ملازمت کرتے تھے یا وہ اس علاقے میں موجود تھے۔

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب نے ملک کے جنوب میں واقع ایک فضائی اڈے پر ہونے والے ملیشیا کے مشتبہ حملے کی مذمت کی ہے جس میں کم ازکم 141 فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

مارٹن کوبلر نے جعمہ کو جاری کردہ ایک بیان میں اس حملے پر غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر جمعرات کو "براق الشاتی فضائی اڈے پر بلااشتعال حملے" کی اطلاعات درست ہیں تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے اور عالمی فوجداری عدالت میں اس کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ملک کے مشرق میں قائم حکومت کی حامی فوج نے اس حملے کے جواب میں سخت کارروائی کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ یہ طرابلس میں قائم حکومت کی حامی ملیشیا نے کیا ہے۔

فوج کے ذرائع کے مطابق طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ قومی حکومت کی حامی ملیشیا جو لیبیا کے باغی کمانڈر خلیفہ ہفتار کی نام نہاد لیبیا کی نیشنل آرمی کے زیر استعمال ہے، نے اس فضائی اڈے پر حملہ کیا۔

لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت اور وزارت دفاع نے جمعرات کو ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسی کارروائی کا حکم نہیں دیا تھا۔ انہوں نے اس واقعہ کی تحقیقات کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو اس حملے کی ذمہ دار ہیں۔

2011ء میں لیبیا طویل مدت سے اقتدار میں رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے اور بعد ازاں ہلاکت کے بعد دھڑے بندی کا شکار ہو گیا اور اب ملک کے مختلف حصے دو حریف حکومتوں کے زیر کنٹرول میں ہیں۔

XS
SM
MD
LG