رسائی کے لنکس

شام کانفرنس: مندوبین میں تلخ کلامی، براہیمی فریقین سے ملیں گے


کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات عائد کیے جب کہ دیگر مندوبین نے بھی اپنی تقریروں میں سخت زبان استعمال کی۔

شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے کہا ہے کہ وہ جمعرات کو شامی حزبِ اختلاف اور حکومت کے نمائندوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔

شام کے بحران کے حل کے لیے سوئٹزرلینڈکے شہر مانٹریکس میں بدھ کو شروع ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے براہیمی نے کہا کہ اپنی ملاقاتوں کے دوران وہ فریقین کے ساتھ شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے پر بات چیت کریں گے۔

عالمی ایلچی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے پہلے روز کی کاروائی سے "صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے" کہ فریقین قیدیوں کے تبادلے، جنگ بندی اور جنگ سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے عام افراد تک امدادی اداروں کو زیادہ رسائی دینے پر گفتگو کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ بین الاقوامی کانفرنس کے ابتدائی دو روز کے دوران ہونے والے عام اجلاسوں کے بعد جمعے کو شام کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کے درمیان اقوامِ متحدہ کے ایلچی کی موجودگی میں پہلی بار براہِ راست مذاکرات ہونا ہیں۔

لخدار براہیمی نے کہا کہ وہ جمعے کی صبح ایک بار پھر فریقین کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بات چیت کریں گے جس کے بعد امکان ہے کہ جمعے کی شام تک وہ فریقین کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اس سے قبل کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے فریقین سے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ بحران کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوں جو ان کے بقول غیر ملکی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو جلا بخش رہا ہے۔

کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے شام کے صدر بشار الاسد کی اقتدار میں موجودگی کا امکان مسترد کرتے ہوئے انہیں خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کاواحد سب سے بڑا سبب قرار دیا۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے صدر اسد کی افواج پر ہزاروں شامی باشندوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے اور کئی جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

جان کیری نے کہا کہ ان کا ملک شام کے عوام کی "ہر قدم " پر حمایت جاری رکھے گا۔ایران کی شرکت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ تہران شام میں جاری بحران کے خاتمے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ کانفرنس میں ان 40 سے زائد ممالک اور عالمی طاقتوں کے ٰ نمائندے شریک ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح شام میں جاری بحران سے تعلق ہے۔ لیکن شامی حکومت کے خطے میں سب سے بڑے اتحادی ایران کا کوئی مندوب کانفرنس میں موجود نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے دیگر متعلق ممالک کی طرح ایران کو بھی کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی تاہم شامی حزبِ اختلاف کے سخت احتجاج اور بائیکاٹ کی دھمکی کے بعد کانفرنس کے آغاز سے دو روز قبل انہوں نے یہ دعوت واپس لے لی تھی۔

مغربی ممالک اور شامی حزبِ اختلاف کا موقف ہے کہ ایران نے چوں کہ شام کے صدر بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی اور ان کے بغیر ایک عبوری حکومت کے قیام پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے لہذا اسے کانفرنس میں نہیں بلایا جانا چاہیے۔ خیال رہے کہ شامی صدر کی اقتدار سے بے دخلی کانفرنس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے لیکن شامی حکومت کے نمائندے اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

ایران کے صدر حسن روحانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کانفرنس میں ایران کی عدم شرکت کا مطلب ہے کہ اس میں ہونے والی بات چیت کامیاب نہیں ہوسکے گی۔

اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والی اس عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات عائد کیے جب کہ دیگر مندوبین نے بھی اپنی تقریروں میں سخت زبان استعمال کی۔

شام کے وفد کے سربراہ اور اسد حکومت کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم نے اپنی تقریر میں اپنی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور غیر ملکی طاقتوں کو شام توڑنے کی کوششوں کا ذمہ دار ٹہرایا۔

شامی وزیرِ خارجہ کی تقریر کے دوران بان کی مون نے ان سے کئی بار اشتعال انگیز بیانات دینے سے گریز کرنے کی درخواست کی اور خطاب ختم کرنے کا کہا جس پر ولید المعلم نے انہیں جھڑک دیا۔

شامی حکومت کے اہم اتحادی روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے اپنی تقریر کے دوران امریکی اور شامی حزبِ اختلاف کے موقف کو آڑے ہاتھوں لیا اور شام میں عبوری حکومت کے قیام میں تمام فریقین کو کردار دینے کا مطالبہ کیا۔
XS
SM
MD
LG