رسائی کے لنکس

خفیہ حراستیں: اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے رپورٹ پر بحث مؤخر


خفیہ حراستیں: اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے رپورٹ پر بحث مؤخر
خفیہ حراستیں: اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے رپورٹ پر بحث مؤخر

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ عدالتی کارروائی پر تو منتج نہیں ہو گی تاہم اس کے نتیجے میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے درجنوں ممالک میں مشتبہ دہشت گردوں کے لیے قائم خفیہ حراستی مراکز سے متعلق انتہائی متنازع رپورٹ پر بحث ملتوی کر دی ہے۔

رپورٹ کے ایک مصنف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ اور دیگر ملکوں کے جن حکومتی عہدے داروں نے مشتبہ دہشت گردوں کے لیے خفیہ حراستی مراکز قائم کرنے کے احکامات دیے، اُنھیں مقدمات اور قید کا سامنا کرنا چاہیئے۔

222صفحات پر مشتمل اِس رپورٹ میں ایسے درجنوں ملکوں کے نام بھی جو لوگوں کو حراست میں رکھنے کے طریقہٴ کار میں یا دوسرے ملکوں کی جانب سے اُن کی قید کا فائدہ اُٹھا کر اُن سے معلومات حاصل کرنے میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ اِن ملزموں کو وکلا یا ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی تک رسائی دیے بغیر خفیہ طور پر قید میں رکھا گیا تھا، اور اُن سے پوچھ گچھ کے لیے جو طریقہٴ کار استعمال کیا گیا وہ بہت سے صورتوں میں اذیت رسانی کے زمرے میں آتا ہے۔

اِس رپورٹ میں کی جانے والی سخت تنقید نے انسانی حقوق کی کونسل میں شامل کئی ملکوں کو برہم کردیا ہے جِن کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ دیگر ملکوں کا، جِن میں مسلمان اور افریقی رکن شامل ہیں، کہنا ہے کہ ماہرین پر رپورٹ لکھنے کی کوئی پابندی نہیں تھی اور یہ کہ اِس پر انسانی حقوق کونسل کو غورو فکر نہیں کرنا چاہیئے۔

کچھ مغربی ملک جِن میں امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں، رپورٹ کے انکشافات سے اتفاق نہیں کرتے۔ تاہم، وہ اِس بارے میں بحث و مباحثے کے لیے تیار ہیں۔

کونسل کو اِس ہفتے حتمی رپورٹ کو سننا تھا، تاہم اُس کے بجائے وہ اُسے جون تک مؤخر کرنے پر تیار ہوگئی ہے۔

اِس تحقیق کے ایک مصنف اور اذیت رسانی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی رپورٹ ساز ، مینفریڈ نوواک نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اور دوسرے کسی بھی ملک میں جِن سرکاری عہدے داروں نے دہشت گردی کے مشتبہ افراد کی خفیہ حراستوں کا حکم دیا تھا اُن کے خلاف عدالتی کارروائی کی جانی چاہیئے۔

اُنھوں نے کہا کہ جبری گم شدگی اور اذیت رسانی کا ہر انفرادی مقدمہ ملک کے داخلی قانون کے تحت جرم ہونا چاہیئے جس کی مناسب سزا ہو، اور مناسب سزا کا مطلب جرمانہ نہیں ہے، اِس کا مطلب قتل ِ عمد جیسے دوسرے بڑے جرائم کی سزاؤں سے مشابہ قید کی سزائیں ہیں۔

خفیہ حراستوں کے بارے میں یہ رپورٹ نوویک اور مارٹن شینن نے تحریر کی ہے جو انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی رپورٹ ساز ہیں۔ اُن کے علاوہ اِس رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کے اُن گروپوں کے نمائندے بھی شامل ہیں جو من مانی گرفتاریوں اور جبری اور گم شدگیوں سے متعلق ہیں۔

اوباما انتظامیہ نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک اور اس برتاؤ کی شفافیت کے سلسلے میں اقدامات کئے تھے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ تحریر کرنے والوں نےا ِن پرگراموں کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہےکہ یہ رپورٹ عدالتی کارروائی پر تو منتج نہیں ہو گی تاہم یہ اُس غیر قانونی طریقہٴ کار کو اجاگر کر دے گی جسے چھپانے کی حکومتیں کوششیں کر رہی ہیں۔ بقول اُن کے، اِن چیزوں کے سامنے لانے کے نتیجے میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG