رسائی کے لنکس

2017ء میں 10 ہزار سے زائد افغان شہری ہلاک و زخمی ہوئے: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت مخالف عناصر دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں اور گزشتہ برس ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد کا 65 فی صد ان ہی عناصر کی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنا۔

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کے عوام ملک میں جاری تنازع کا بدستور خمیازہ بھگت رہے ہیں جس میں گزشتہ سال بھی 10 ہزار سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے) اور عالمی تنظیم کے دفتر برائے انسانی حقوق کی طرف سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ جمعرات کو جاری کی گئی ہے جس کے مطابق 2017ء میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں 3438 شہری ہلاک اور 7015 زخمی ہوئے۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی تادامیچی یاماموتو کے مطابق یہ اعداد و شمار افغانستان میں جاری جنگ کے عوام پر تباہ کن اثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔

انھوں نے خاص طور پر خودکش اور بم حملوں میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں خواتین اور بچوں کا متاثر ہونے انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مختلف پرتشدد کارروائیوں میں 359 خواتین ہلاک اور 865 زخمی ہوئیں جو خواتین کے جانی نقصان میں ماضی کی نسبت پانچ فی صد زیادہ ہے۔ اسی طرح ہلاک و زخمی ہونے والے بچوں کی شرح میں بھی دس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

2017ء میں 861 بچے ہلاک اور 2318 زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت مخالف عناصر دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں اور گزشتہ برس ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد کا 65 فی صد ان ہی عناصر کی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنا۔

رپورٹ کے مطابق 45 فی صد شہری طالبان، دس فی صد داعش اور 13 فی صد دیگر حکومت مخالف متحارب عناصر کی کارروائیوں میں ہلاک و زخمی ہوئے۔

اسی طرح 16 فی صد شہری نقصان افغان سکیورٹی فورسز، دو فی صد بین الاقوامی افواج اور ایک فیصد حکومت کے حامی مسلح گروپوں کی کارروائیوں میں ہوا۔

ٹرک بم دھماکے سے جائے وقوع پر ایک بڑا گڑھا بن گیا
ٹرک بم دھماکے سے جائے وقوع پر ایک بڑا گڑھا بن گیا

گزشتہ سال سب سے ہلاکت خیز واقعہ 31 مئی کو کابل میں پیش آیا جس میں عسکریت پسندوں نے تقریباً دو ہزار کلوگرام بارودی مواد سے بھرے ٹرک کو دھماکے سے اڑایا تھا۔ اس واقعے میں 92 شہری ہلاک جب کہ 491 زخمی ہوگئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین کا کہنا ہے کہ آج افغان عوام ملک میں کہیں بھی محفوظ نہیں، "نہ مساجد میں اور نہ ہی کسی بس میں۔"

"افغان شہری اپنے روز مرہ معمولات پر جاتے ہوئے مارے جا رہے ہیں۔ بس پر سفر کرتے ہوئے، مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے، کسی حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کے پاس سے گزرتے ہوئے۔ ہر گزرتے سال افغان عوام خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں جی رہے ہیں جب کہ اس سب کے ذمہ دار سزا نہیں پا رہے۔"

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال چھ ایسے حملے ہوئے جن میں عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں 160 افراد ہلاک جب کہ 252 زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

عالمی ادارے کے معاون مشن کے مطابق 2017ء میں بین الاقوامی افواج اور افغان فورسز کی طرف سے کی گئی فضائی کارروائیوں میں بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا جن میں 295 شہری ہلاک اور 336 زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے عام شہریوں کے جانی نقصان سے بچنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی بدولت ماضی کی نسبت سرکاری فورسز کی کارروائیوں میں ہونے والے شہری جانی نقصان میں 23 فی صد کمی دیکھنے میں آئی۔

XS
SM
MD
LG