رسائی کے لنکس

پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا التوا: نیا سیاسی بحران جنم لینے کا خدشہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد ملک میں نیا سیاسی و آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جب کہ تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن کےاس اقدام کو آئین سے انحراف قرار دے رہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے30 اپریل کو ہونے والے انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کیے ہیں۔ تاہم اب یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد اسے ملتوی کرنے کا اقدام کہیں توہینِ عدالت تو نہیں؟ کیا سپریم کورٹ کو پر پھر مداخلت کرنا پڑے گی؟ کیا الیکشن کمیشن کو عدالت مقررہ مدت میں ہی انتخابات کے انعقاد کا حکم دے گی؟

یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کے جواب آنے ہیں لیکن تحریکِ انصاف نے اسے ملکی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سپریم کورٹ معاملے کو دیکھے قوم اس کی پشت پر موجود ہے۔

مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت کئی مقدمات میں تحریکِ انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے جان بوجھ کر سرِعام آئین سے روگردانی اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو انارکی قرار دیا اور کہا کہ ملکی تاریخ میں یہ فیصلہ کن موڑ ہے۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کمیشن کی مدد نہیں کر سکے۔

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں آئینی بحران، معاشی گراوٹ، سیاسی پستی، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ اور سر اٹھاتی دہشت گردی جیسے چیلنجز کا سامنا کیا ہے لیکن یہ تمام مسائل شاذ و نادر ہی کبھی ایک ساتھ آئے ہیں۔

ان کے بقول مذکورہ مسائل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک سست رفتار ٹرین ہے جس کی بظاہر کوئی منزل نظر نہیں آتی۔

دوسری جانب چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین پر سنگین حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر آج اس فیصلے کو قبول کر لیا جاتا ہے تو پاکستان میں قانونی کی حکمرانی کا خون ہو جائے گا۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ " ہم نے دو صوبائی اسمبلیاں اس امید پر تحلیل کیں تھیں کہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں گے جس کا دستور واضح حکم بھی دیتا ہے۔"

ادھر حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے موقف میں دعویٰ کیا ہے کہ آئین کے تحت صوبوں اور وفاق کے انتخابات بیک وقت ہونا ضروری ہیں۔ اگر پنجاب میں پہلے انتخابات ہو گئے تو یہ دوسرے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران خطاب میں کہا کہآئین 90 روز میں الیکشن کا کہتا ہے لیکن آئین میں یہ بھی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہونا چاہیے۔ اگر دو صوبوں میں پہلے الیکشن ہوئے تو پھر ہر جانب سے دھاندلی کا شور اُٹھے گا۔ لہذٰا پارلیمنٹ ایک روز الیکشن کرانے کے حوالے سے رہنمائی کرے۔

ان کے بقول، "اگر عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات میں ہار گئے تو وہ الزام لگائیں گے کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی وجہ سے دھاندلی ہوئی۔"

XS
SM
MD
LG