رسائی کے لنکس

پاکستان کی بڑھتی آبادی: 'وسائل بڑھیں گے تو مسائل کم ہوں گے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو سنہ 2046 میں یہ دو گنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے اور رہائشی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔

پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ 78 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ملکی آبادی میں سالانہ 2.40 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جو خطے کے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان کے صوبوں میں آبادی بڑھنے کی شرح

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی موجودہ آبادی گیارہ کروڑ ہے اور یہاں آبادی 2.13 فیصد کے تناسب سے آگے بڑھ رہی ہے۔

آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جو پونے پانچ کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں آبادی میں اوسط سالانہ اضافہ دو اعشاریہ چار فیصد ہے۔ خیبر پختونخوا کی آبادی پونے چار کروڑ ہے یہاں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.89 ہے۔

بلوچستان ایک کروڑ تئیس لاکھ آبادی کے ساتھ ملک کا سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے جہاں آبادی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح 3.37 فیصد ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر ایشیائی ممالک سے زیادہ ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر ایشیائی ممالک سے زیادہ ہے۔

آبادی میں اضافہ سے جنم لینے والے مسائل

ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔

آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔

صحت اور آبادی کے مسائل پر تحقیق اور حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے پالیسی تجویز کرنے والے ادارے پاپولیشن کونسل پاکستان کے مطابق اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو دو ہزار چالیس تک بارہ کروڑ مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کو پہلے ہی مکانات کی کمی کا سامنا ہے ایسے میں شہریوں کے لیے رہائشی ضروریات پوری کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔

اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

دوران زچگی اموات اور خاندانی منصوبہ بندی کا فقدان

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

مانع حمل کے طریقوں سے آگاہی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں ہر شادی شدہ جوڑا غیر ارادی طور پر ایک بچہ پیدا کرتا ہے جبکہ 17.3 فیصد جوڑے خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس پر عمل نہیں کر پاتے۔

آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

پاکستانی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں

پاپولیشن کونسل آف پاکستان کی پروجیکٹ ڈائریکٹر سامعہ علی شاہ کے مطابق بارآوری کی شرح میں اضافہ یا بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونا بچوں میں غذائیت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر سات فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، 38 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں اور 23 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔

سامعہ علی شاہ نے بتایا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک ترقی نہیں کر رہا، لیکن جس شعبے میں کچھ بہتری ہوتی ہے، وہیں بڑھتی ہوئی آبادی اس ترقی پر حاوی ہو جاتی ہے۔

پانی کی قلت اور شہری پھیلاوؑ

پاکستان پانی کی کمی کے لحاظ سے دینا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔

سنہ 1951 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو سنہ 2017 میں گھٹ کر محض 860 مکعیب میٹر رہ گیا ہے۔

اربن یونٹ پنجاب کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ناصر جاوید اس موضوع پر لاہور کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق 1995 ميں لاہور کا رقبہ چون ہزار ايک سو سولہ ايکڑ تھا۔ جو دو ہزار پانچ ميں بياسی ہزار سات سو اسی ايکڑ تک جا پہنچا ہے اور آج لاہور ايک لاکھ اڑتاليس ہزار سات سو ستاون ايکڑ رقبے پر پھيلا ہوا ہے۔

ناصر جاوید کے مطابق 1995 سے 2005 میں شرح نمو 53 فیصد جبکہ 2005 سے 2017 تک یہ شرح 80 فیصد تک پہنچ گئی ہے یعنی لاہور شہر کا حجم پندرہ سے بیس سال میں دوگنا ہو گیا ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آنے والے سالوں میں صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔

آبادی بڑھنے سے پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
آبادی بڑھنے سے پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

ٹریفک مسائل اور ذرعی رقبے پر ہاوسنگ اسکیمیں

یونیورسٹی آف انجینئیرنگ کے شعبہ سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے پروفیسر ڈاکٹر شاکر کہتے ہیں کہ آبادی کی بڑھوتری ٹريفک کے ان گنت مسائل کو بھي جنم ديتی ہے۔

زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی سروسز پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہو تی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑ گیا ہے۔

آبادی بڑھنے کی وجہ سے ذرعی زمینیں ہاوسنگ کالونیز میں تبدیل ہو رہی ہیں جس کے باعث دیہی علاقے شہر سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر شاکر کہتے ہیں کہ ہر آبادی کو دودھ، سبزی اور اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیا درکار ہوتی ہیں ایسے میں دوردراز سے اشیا کی ترسیل کے باعث ان شہریوں کو اضافی اخراجات کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

آبادی میں اضافے سے بڑے شہروں میں بے ہنگم ٹریفک مزید مسائل پیدا کر رہی ہے۔
آبادی میں اضافے سے بڑے شہروں میں بے ہنگم ٹریفک مزید مسائل پیدا کر رہی ہے۔

آبادی میں کنٹرول کے لیے پاکستان کیا کرسکتا ہے؟

پاپولیشن کونسل سے وابستہ سامعہ علی شاہ کہتی ہیں کہ ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔

ان کے بقول خاندانی منصوبہ بندی کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص کردہ مالی وسائل ایک ڈالر فی کس سے بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کے لئے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔

سامعہ علی شاہ کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز کے علاوہ محکمہ صحت کے تمام مراکز پر متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔

ان کے بقول تمام مسائل کا حل پنجاب کے ساتھ بھی جڑا ہے کیونکہ جب تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کی آبادی بے قابو رہے گی تب تک ہم اس شرح پر قابو نہیں پاسکتے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاکر کہتے ہیں کہ جو ہوگیا، سو ہوگیا لیکن اب آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے حکومت کو پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔

ان کے بقول پہلے سے موجود اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے بڑے شہروں کو مزید پر کشش بنانے کی بجائے نئے شہر بسانے ہوں گے، ان قصبوں اور دیہات میں مواقع پیدا کرنے ہوں گے جہاں ترقی کی رفتار سست ہے۔ تاکہ کوئی بھی علاقہ وسائل کی کمی کا مزید شکار نہ ہو۔

XS
SM
MD
LG