رسائی کے لنکس

جاپان کی نئی دفاعی پالیسی، معمول کی عالمی طاقتوں کا انداز اپنانے کا عزم


جاپان ملٹری۔ فائل فوٹو
جاپان ملٹری۔ فائل فوٹو

اس ماہ جاپان نے بعد از جنگ اپنی فوجی پابندیوں میں کچھ نرمی کی اور کچھ ایسی نئی پالیسیوں کا اعلان کیا جن کی وجہ سے علاقائی اور عالمی سلامتی کے امور میں، ایشیا کے اس طاقتور ملک کا عمل دخل بہت بڑھ جائے گا۔

سیول سے وائس آف امریکہ کے ولیم گیلو نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں جاپان کی اس نئی حکمت عملی کا جائزہ لیاہے۔

نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی( این ایس ایس) یا نئی سیکیورٹی حکمت عملی اور دسمبر کے وسط میں جاری کی گئی دو دیگر دستاویزات کے تحت جاپان، آئندہ پانچ برسوں میں اپنے دفاعی اخراجات میں لگ بھگ دو گنا اضافہ کر دے گا اور پہلی مرتبہ ایسے میزائیل نصب کرے گا جو دوسرے ملکوں میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔

یہ پالیسیاں جاپان میں دہائیوں پرانے ان ممنوعات کو ختم کرتی ہیں، جس نے دوسری جنگ عظیم میں ٹوکیو کی شکست کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تیار کردہ تکنیکی طور پر امن پسند آئین کے تحت نسبتاً پابند دفاعی انداز کو اپنایا ہے۔

جاپان کے ماہر سیاست اور جرمن مارشل فنڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹوبیاس ہیرس نے کہا کہ تین دستاویزات میں بیان کردہ نقطہ نظر کو سمجھنے سے، جاپان بالآخر اپنے دفاع کی صلاحیت کے لحاظ سے ایک’معمول کی قوم‘ بن سکتا ہے۔

جاپان نے اپنی موجود فوج میں مسلسل اضافہ کیا ہے، جسے جاپان سیلف ڈیفنس فورسز کہا جاتا ہے، خاص طور پر ایسے میں جب گزشتہ ایک عشرے یا اس سے کچھ زیادہ عرصے میں چین کا رویہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ طاقتور اور جارحانہ ہو گیا ہے۔

لیکن جاپان کی خود ساختہ آئینی پابندیوں کا مطلب ہے کہ اس کی فوجی طاقت اس کی اقتصادی طاقت کے مطابق نہیں ہے۔ اگرچہ جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے، لیکن یہ عالمی دفاعی اخراجات میں نویں نمبر پر ہے

یہ جلد ہی بدل سکتا ہے۔ نیا منصوبہ اگلے پانچ سالوں میں دفاعی اخراجات کو جاپان کے جی ڈی پی کے 2 فیصد تک بڑھا دے گا، جو روایتی 1 فیصد سے زیادہ ہے۔ تب جاپان عالمی درجہ بندی میں کسی دوسری تبدیلی کے بغیر مجموعی دفاعی اخراجات میں صرف امریکہ اور چین سے پیچھے رہے گا۔

جوابی حملے کی صلاحیت

جاپان کی نئی دفاعی تبدیلیوں کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک وہ اختیار ہے جسےٹوکیو ’’ جوابی حملے کی صلاحیت‘‘ یا دشمن کی سرزمین پر اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت سے تعبیر کرتا ہے۔

اس طرح کے ہتھیاروں کا حصول طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے، کیونکہ جاپان کے آئین میں ایسے ہتھیاروں کی ممانعت کی توجیح کی گئی ہے جنہیں فطرت میں جارحانہ نہ کہ دفاعی سمجھا جا سکتا ہے۔

جاپان مین زمینی سیلف ڈیفنس فورس کا ایک رکن، بحریہ شکن میزائل کی ڈرل کروا رہا ہے۔ فوٹو جاپان، 21 اپریل 2022
جاپان مین زمینی سیلف ڈیفنس فورس کا ایک رکن، بحریہ شکن میزائل کی ڈرل کروا رہا ہے۔ فوٹو جاپان، 21 اپریل 2022

اپنے جوابی حملے کے منصوبوں کے ایک حصے کے طور پر، جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹوکیو امریکی ساختہ سینکڑوں ٹوماہاک کروز میزائل خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے، جن کی رینج 2500 کلومیٹر تک ہے۔

ہمسایہ ممالک سے جاپان کو خطرات

ان صلاحیتوں کا مقصد جاپان کو اس سے نمٹنے میں مدد کرنا ہے جسے این ایس ایس میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ’’سب سے شدید اور پیچیدہ سیکیورٹی ماحول‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

جاپان خاص طور پر چین کے بارے میں فکر مند ہے، جو اندرون ملک زیادہ آمرانہ اور بیرون ملک اپنے مفادات کے دفاع کے لیے زیادہ زور آور ہو گیا ہے۔

حالیہ برسوں میں، چین نے اکثر روس کے ساتھ مل کر، جاپان کے دعویٰ کردہ جزائر کے قریب فوجی مشقوں میں اضافہ کیا ہے۔

این ایس ایس کے مطابق چین، جاپان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔

اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی دوران، شمالی کوریا، کسی بھی پہلے دور کے مقابلے میں، جاپان کی قومی سلامتی کے لیےفوری اور شدید تر خطرہ ہے۔

این ایس ایس میں، چین سے اس کے قریبی روابط اور یو کرین پر حملے کے باعث روس سے بھی سخت سیکیورٹی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

روس کے اپنے کمزور پڑوسی پر بلا اشتعال حملے نے جاپان میں بہت سے لوگوں کو ششدر کر دیا، اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگ ٹوکیو کو ایک زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنانے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

علاقائی ردِ عمل

ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے جاپان کی نئی دفاعی پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے اسے آزاد اور کھلے ہند و بحرالکاہل کے خطے کی مضبوطی اور دفاع کی جانب ایک جرآت مندانہ اور تاریخی قدم قرار دیا۔

لیکن شاید توقع کے مطابق چین، شمالی کوریا اور روس نے جاپان کے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔

ماسکو نے جاپان پر ’بے لگام عسکریت پسندی‘ کو اپنانے کا الزام لگایا۔ پیانگ یانگ نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی امن کے لیے ایک "سنگین چیلنج" قرار دیا۔ بیجنگ میں، عہدیداروں نے کہا کہ جاپان’’ چین کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے تاکہ اپنی فوج میں اضافے کا بہانہ تلاش کر سکے، لیکن یہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔‘‘

ایسے میں جب کہ ہر ملک اپنی فوج کو جدید بنانے کا آغاز کر رہا ہے، اس تنقید کو منافقت کے طور پر دیکھے جانے کا خدشہ ہے۔

ٹوکیو کی ٹیمپل یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جیمز براؤن کہتےہیں،’’یہ وہ تمام ممالک ہیں جن کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ لہذا، یہ خیال بے بنیاد ہےکہ انہیں جاپان کے دفاعی موقف میں بہت زیادہ پابنداور اعتدال پسند تبدیلی کے لیے تنقید کرنی چاہیے۔‘‘

XS
SM
MD
LG