اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرنینڈا ایسپینوسا پاکستان کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے وزیر اعظم عمران خاں سمیت وزیر خارجہ اور دوسرے عہدے داروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے زیر بحث آنے والے موضوعات کا ذکر کیا ہے۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کے قمر عباس جعفری نے دو ممتاز ماہرین، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے نعمان ظفر اور شکاگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر بخاری سے گفتگو کر کے اس دورے کی اہمیت اور ممکنہ نتائج کے پر گفتگو کی۔
نعمان ظفر کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے یہ دورہ اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی صدر کا 8 سال میں پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے، اور انہوں نے ایشیا میں سب سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دورے میں کشمیر، افغانستان، اقوام متحدہ کی امن فوج میں پاکستان کے رول اور افغان پناہ گزینوں سمیت متعدد مسائل زیر غور آئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے خاص طور پر انہیں بھارتی کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ کیونکہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرادادیں موجود ہیں اور پاکستان ان پر عمل درآمد چاہتا ہے، لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس سے کشمیر کے مسئلے کے حل کی کوئی صورت نکل سکتی ہے تو وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی حقیقت پسندانہ بات ہو گی کیونکہ جنرل اسمبلی کی قرارداوں پر عمل درآمد لازمی نہیں ہوتا بلکہ اس میں سلامتی کونسل کی قرارداوں کی اہمیت ہوتی ہے اور وہاں کچھ اور طرح کی سیاست چلتی ہے۔
نعمان ظفر کا کہنا تھا کہ بہر حال پاکستان کی جانب ایک پیغام گیا ہے جس سے انہیں اور جنرل اسمبلی کو نئی معلومات حاصل ہوں گی۔
ڈاکٹر ظفر بخاری کا بھی یہ ہھی خیال تھا کہ اگر پاکستان نے اپنا موقف درست طریقے سے پیش کیا ہے تو جنرل اسمبلی کو نئی معلومات ملیں گی۔ لیکن اصل اہمیت سلامتی کونسل کی ہوتی ہے جہاں سارے اختیارت چند ملکوں کے ہاتھ میں ہوتے ہی، اور اسی کی قرارداوں پر عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔