رسائی کے لنکس

اترپردیش اسمبلی انتخابات: بی جے پی پر 'مذہبی کارڈ' کا الزام، کیا یوگی پھر وزیر اعلیٰ بن پائیں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی پانچ ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا کی اسمبلیوں کے لیے انتخابی مہم جاری ہے۔ پنجاب کو چھوڑ کر باقی چار ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے اور وہ ان ریاستوں میں اپنی حکومتوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔

ریاستی انتخابات میں 10 فروری کو پہلے اور سات مارچ کو آخری مرحلے کی پولنگ ہوگی اور 10 مارچ کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔لیکن ان انتخابات میں سب کی نگاہیں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش پر لگی ہوئی ہیں جہاں 10 فروری سے سات مارچ کے درمیان سات مراحل میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

بھارت کی ریاست اتر پردیش کی کل آبادی 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں 80 فی صد آبادی ہندوؤں اور 20 فی صد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق یوپی کی ریاستی اسمبلی کی 403 نشستوں کے لیے 15 کروڑ دو لاکھ 84 ہزار رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔

اترپردیش میں گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے 325 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بی جے پی اس بارمجموعی طور پر 200 سے 250 نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم بیشتر مبصرین ان سروے رپورٹس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بقول ریاست کے حالیہ انتخابی منظرنامے کی روشنی میں یوپی میں بی جے پی کی حکومت کا تسلسل برقرار رہنا مشکل نظر آتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعد ریاست میں دوطرفہ مقابلہ ہے۔ اکھلیش یادو کی جماعت 'سماج وادی پارٹی' اور جینت چودھری کی جماعت راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کا انتخابی اتحاد حکمران جماعت بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

کانگریس، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی جماعت مجلس اتحاد المسلمین(ایم ایم آئی ایم) کے علاوہ بعض دیگر چھوٹی جماعتیں بھی یوپی کے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ بی جے پی ، سماج وادی اور آر ایل ڈی اتحاد کے درمیان ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے بے روزگاری، مہنگائی، خواتین کے تحفظ، کسانوں کے مسائل اور بعض دیگر عوامی ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں۔لیکن بعض مبصرین نے یہ الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی جے پی کا 300 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق جہاں اپوزیشن جماعتیں عوامی مسائل کو اجاگر کر رہی ہیں وہیں بی جے پی فرقہ وارانہ معاملات کو ہوا دے رہی ہے۔بی جے پی کے ترجمان اور دیگر رہنمامقامی نشریاتی اداروں پر ہونے والے مباحثوں میں فرقہ وارانہ ایشوز کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یوگی حکومت میں نظم و نسق کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور خواتین کے خلاف جرائم کم ہوئے ہیں۔ ریاست سے غنڈہ گردی کا خاتمہ ہوا ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کیے گئے ہیں۔

بی جے پی رہنماؤں کے مطابق ان کی جماعت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ رہی ہے نہ کہ مذہبی ایشوز پر۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یو پی میں ایک بار پھر بی جے پی کو 300 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔

تجزیہ کار معصوم مرادآبادی بی جے پی رہنماؤں کے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعلیٰ یوگی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ" یہ الیکشن 80 اور 20 کے درمیان ہے۔" اس طرح انہوں نے مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی۔

خیال رہے کہ اتر پردیش میں 80 فی صد ہندو اور 20 فی صد مسلم آباد ہیں اسی لیے سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بیان میں وزیرِ اعلیٰ یوگی کا اشارہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی آبادی کے اسی تناسب کی جانب تھا۔

بھارت میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:50 0:00

دس فروری کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں مغربی اترپردیش کی 58 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی نے ان میں سے 53 نشستیں جیتی تھیں۔

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کے مطابق اس بار بی جے پی کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا انہی نشستوں پر ہے۔ کسان تحریک کے دوران اس خطے کے کسانوں نے دہلی اور یوپی کی سرحد غازی پور میں ایک سال سے زائد عرصے تک دھرنا دیا تھا۔

ان کے بقول وزیر اعلیٰ یوگی اور بی جے پی رہنما اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کے بجائے سابقہ سماج وادی پارٹی کی حکومت کی خامیاں بیان کر رہے ہیں۔

اترپردیش میں ایک بار پھر فسادات کی بازگشت

ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے متنازع زرعی قوانین واپس لیے ہیں لیکن اس کا کچھ زیادہ اثر نہیں پڑا۔ مغربی اترپردیش کے جاٹ کسانوں، مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے لیے کوئی ہمدردی نہیں دکھائی لہٰذا وہ اس بار بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مظفر نگر اور سہارنپور کے انتخابی دوروں کے دوران 2013 میں مظفر نگر میں ہونے والے فسادات کا ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکومت بنتی ہے تو پھر فسادات ہوں گے۔

خیال رہے کہ مظفر نگر میں ہونے والے فساد کے دوران 62 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات کی وجہ سے تقریباً 40 ہزار افراد بے گھر بھی ہوئے تھے۔

اس سے قبل امیت شاہ نے مسلم اکثریتی قصبے کیرانہ کے دورے کے موقع پر کیرانہ سے ہندوؤں کے مبینہ نقل مکانی کا ایشو اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ بی جے پی کی حکومت میں کسی ہندو کو نقل مکانی پر مجبور نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ نقل مکانی کا کوئی ایشو نہیں ہے۔ کیوں کہ ماضی میں ہندوؤں نے ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے نہیں بلکہ روزگار کے سبب سے نقل مکانی کی تھی۔

بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کاشی وشواناتھ کاریڈور اور متھرا کے مندر کے ایشوز بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کئی بار پاکستان اور محمد علی جناح کا بھی نام لے چکے ہیں۔ وہ کئی بار الزام عائد کر چکے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں پاکستان اور جناح پرست ہیں۔

تجزیہ کار معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ اکھلیش یادو نے ایک بار ہندوستان کی برطانوی حکومت کے خلاف جنگِ آزادی کے سلسلے میں محمد علی جناح کا نام لیا تھا لیکن اس کے بعد بی جے پی کے رہنما درجنوں بار یہ نام لے چکے ہیں۔

ہرویر سنگھ کے مطابق 2014 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات سمیت 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کی وجہ سے بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی تھی۔ لیکن اب ان کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے آگیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوئے۔

'اس بار مسلم ووٹ اہمیت اختیار کر گیا ہے'

تجزیہ کار ہرویرسنگھ کے مطابق سابقہ تین انتخابات میں مسلم ووٹ غیر اہم ہو کر رہ گئے تھے۔ لیکن اس بار کم از کم یو پی میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے بنگال کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بی جے پی کو ہرانے والی جماعت کو یکمشت ووٹ دینے والے ہیں۔

بعض دیگر مبصرین کہتے ہیں کہ یوپی میں اسد الدین اویسی بھی ایک محاذ بنا کر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے انتخابی جلسوں میں مسلم نوجوانوں کی بھیڑ نظر آرہی ہے۔ لیکن ان نوجوانوں سے الگ سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اویسی کی تقریر سننے آتے ہیں لیکن ووٹ اسی کو دیں گے جو بی جے پی کو ہرا سکتا ہو۔

ایک نشریاتی ادارے 'زی نیوز ؛کے ایک سروے کے مطابق 73 فی صد ووٹرز کا خیال ہے کہ انتخابات میں بے روزگاری سب سے اہم ایشو ہے۔ 65 فی صد کے مطابق مہنگائی اہم ایشو ہے جب کہ 54 فی صد ترقی کو انتخابی ایشو سمجھتے ہیں۔ 39 فی صد کے لیے آوارہ جانوروں کا ایشو اور 19 فی صد کے مطابق کسانوں کا مسئلہ اہم انتخابی ایجنڈا ہے۔

خیال رہے کہ 'زی نیوز' کو حکومت کاحامی میڈیا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔

بھارت: مسلم رہنما شہریت قانون میں تبدیلی کے لیے پُر امید
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

رپورٹس کے مطابق یوپی میں حکومت کی پالیسی کی وجہ سے آوارہ جانوروں کی بھرمار ہو گئی ہے اور تقریباً پوری ریاست میں کسان راتوں کو جاگ کر ان آوارہ جانوروں سے اپنی فصلوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا کئی حلقوں میں یہ بھی ایک بڑا ایشو ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یوپی الیکشن میں ذات برادری کا ایشو بھی کافی اہم ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سے مستعفی ہوکرسماجوادی پارٹی میں شامل ہونے والے تقریباً ایک درجن اراکین اسمبلی دلت اور پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ استعفی دینے والوں میں تین وزیر بھی شامل ہیں۔

مبصرین کے مطابق وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر ہندوؤں کی اونچی ذات ٹھاکر برادری کی سیاست کرنے کا الزام ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یوگی حکومت میں پسماندہ برادریوں کی بہبود کا کوئی کام نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔

چند روز قبل اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے نامہ نگار نے یوگی سے سوال کیا تھا کہ آپ پر ٹھاکر برادری کی سیاست کرنے کا الزام ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ انہیں اس الزام پر کوئی شرمندگی نہیں۔ انہیں اس پر فخر ہے کہ وہ ٹھاکر برادری میں پیدا ہوئے ہیں اور بقول ان کے اس برادری میں تین بار بھگوان بھی جنم لے چکے ہیں۔

یوگی کے اس بیان کو اپوزیشن جماعتوں نے ایک ایشو بنانے کی کوشش کی ہے جب کہ بی جے پی کے اندر بھی اس پر ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ادھر اترپردیش کے کم از کم ایک درجن مقامات پر بی جے پی امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان علاقوں میں بی جے پی کے خلاف نعرے بازی ہوئی ہے جس کے بعد امیدواروں کو واپس جانا پڑا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG