رسائی کے لنکس

کیا مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی بھی 'ہیٹ اسپیچ' کی ایک شکل ہے؟


بھارت کے شہر ممبئی کی سائبر کرائم پولیس نے مسلم خواتین کی تصاویر آن لائن نیلامی میں استعمال کرنے کے الزام میں ایک اور ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بعد اس کیس میں گرفتار ملزمان کی تصدیق تین ہو گئی ہے۔

تیسرے گرفتار شخص کا نام مینک راوت ہے اور اس کی عمر 21 سال ہے۔ وہ ایک اسٹوڈنٹ ہے۔ اس سے قبل پولیس نے اتراکھنڈ سے ہی ایک خاتون طالبہ شویتا سنگھ (19 سال) اور بنگلور سے انجینئرنگ کے ایک اسٹوڈنٹ وشال کمار جھا (21 سال) کو گرفتار کیا تھا۔

خیال رہے کہ ایک امریکی ویب سائٹ ’گِٹ ہب‘ پر ’بُلی بائی‘ ایپ بنایا تھا جس پر ایک سو سے زائد شہرت یافتہ مسلم خواتین کی تصاویر ان کی اجازت کے بغیر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے لے کر پوسٹ کی گئی تھیں۔

اس سے قبل اسی ویب سائٹ پر ’سِلی ڈیل‘ نامی ایپ پر مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

یکم جنوری کو اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد شیو سینا کی ایک رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشونی ویشنو سے اس معاملے میں کارروائی کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے ممبئی کے پولیس سربراہ سے بھی کارروائی کی اپیل کی تھی۔

ان کی اپیل کے بعد اشونی ویشنو نے بتایا تھا کہ 'گِٹ ہب' نے مذکورہ ایپ تیار کرنے والے صارف کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہے۔

بھارت کے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ سے وابستہ ایک خاتون صحافی عصمت آرا نے دہلی پولیس میں رپورٹ درج کرائی تھی۔ اس کے بعد ممبئی کی پولیس نے رپورٹ درج کی تھی۔

ممبئی پولیس کے مطابق گرفتار شدگان ایک بڑی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مینک کی طرح شویتا اور وشال بھی مسلم خواتین کے سلسلے میں بیہودہ تبصروں والے کئی ٹوئٹر اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ شویتا کا تعلق مغربی اتر پردیش کے بلند شہر قصبے سے ہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور خاندان سے آتی ہے۔ وہ اتراکھنڈ کے اودھم سنگھ نگر سے پکڑی گئی ہے۔

پولیس کے مطابق شویتا کو وشال کی نشاندہی پر پکڑا گیا۔

نئی دہلی کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وشال اور شویتا سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔ انہوں نے ایک ساتھ ایپ بنایا۔ شوسل میڈیا پر تصاویر اپ لوڈ کرنے کے لیے چار ٹوئٹر اکاونٹس کا استعمال کیا گیا۔

تحقیقاتی افسر کے مطابق وشال نے ’خالصہ سپریمیسسٹ‘ نام سے ایک فرضی اکاؤنٹ بنایا تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے اور یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ اکاؤنٹ کسی غیر ہندو کا ہے۔ یہ تاثر دینے کے لیے کہ یہ حقیقی اکاؤنٹ ہے اس نے سکھ ناموں سے کئی اکاؤنٹس بنائے۔

وشال کا تعلق بہار سے ہے۔ اسے ممبئی میں ایک مجسٹریل عدالت میں پیش کیا گیا جس نے اسے 10 جنوری تک پولیس تحویل میں دے دیا۔

آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمن ایسو سی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں نفرت کا ماحول بنانے کی جو کوشش ہو رہی ہے ’بلی بائی‘ ایپ کا معاملہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد بھی اقلیتوں کو ہدف بنا کر ملک میں نفرت پیدا کرنا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف عیسائیوں کو۔ ابھی کرسمس کے موقع پر گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل جب سلی ڈیل کا معاملہ سامنے آیا تھا تو ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اسی وقت کوئی سخت کارروائی کی گئی ہوتی تو یہ معاملہ آگے نہ بڑھتا۔

ان کے مطابق سلی ڈیل ہو یا بلی بائی اس کا مقصد شہرت یافتہ مسلم خواتین کو بدنام کرنا ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو حکومت کی مبینہ عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف بولتی ہیں یا جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ سرگرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین تنظیموں کی جانب سے ملک کے صدر کو خط لکھ کر ان سے اپیل کی گئی ہے کہ مذکورہ ایپ بنانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، کیونکہ یہ صرف نفرت کا معاملہ نہیں ہے۔ خواتین کی تصاویر پوسٹ کرکے ان کی بولی لگانا دراصل ان کو بدنام کرنا ہے۔

سینئر تجزیہ کار شیبہ اسلم فہمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ بھارت کا معاشرہ آج اس قدر نفرت میں مبتلا ہو گیا ہے کہ وہ ملک کی روح پر حملہ کر رہا ہے اور اس پر بدنما داغ لگا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو بدنام کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی، کیونکہ یہ وہ خواتین ہیں جن کی ایک آواز ہے جو سماج میں ایک مقام رکھتی ہیں، یہ شہرت یافتہ خواتین ہیں، صحافی ہیں، سیاست داں ہیں، قلمکار ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ملک کے مسائل کی طرف سے لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹائی جا سکے۔

ان کے خیال میں ایسے لوگوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کو یہ یقین ہے کہ وہ کچھ بھی کریں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ اگر وہ کچھ دنوں کے لیے جیل چلے بھی جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

حکومت کا مؤقف

خیال رہے کہ حکومت مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کے الزام کی تردید کرتی آئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرے گی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلی بائی ایپ ملک کی تہذیبی و ثقافتی شناخت کے خلاف ایک سازش ہے۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔

اس سے قبل نائب صدر ایم وینکیا نائڈو نے پیر کے روز کیرالہ کے کوٹایم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر ملک کی تہذیب و ثقافت، دستور اور اس کی روح کے منافی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق ہے اور کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف اشتعال انگیزی کرے۔

ادھر ’انڈین ویمن پریس کور‘ نے مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کے واقعے کی مذمت کی ہے اور تین گرفتاریوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلی بائی ایپ اقلیتوں کے خلاف ایک سازش ہے اور اس کا مقصد مسلم خواتین کے خلاف تشدد برپا کرانا ہے۔

قبل ازیں قومی کمیشن برائے خواتین نے دہلی پولیس سے اپیل کی کہ وہ مذکورہ ایپ تیار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

متعدد مسلم شخصیات نے بھی اس معاملے کی مذمت کی ہے اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بالی وڈ اداکارہ سورا بھاسکر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اس وقت ہمیں خود کو یاد دلانا ہوگا کہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی ٹھیک نہیں ہے۔ اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ یہ نسل کشی کا مطالبہ کرنے کے مترادف ہے۔ لوگوں کی نماز میں خلل ڈالنا ہمارے لیے درست نہیں۔ یہ سب ہمارے بھگوان کے نام پر ہو رہا ہے۔

بالی وڈ کی دیگر شخصیات نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG