قتیل شفائی ایک ایسے شاعر تھے جو نصف صدی تک بھارت او رپاکستان کے مشاعروں پر چھائے رہے ۔ شاید ہی کوئی ایسا بڑا شہر ہو گا جس میں انہوں نے مشاعرے نہ پڑھے ہوں۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک درجن سے زائد فلموں میں گانے لکھے اور ان کے گانے بہت مقبول ہوئے ۔
ان کے 20 شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ ایک طرح سے انہوں نے بھر پور ادبی زندگی گزاری اور 81 سال کی عمر میں 11 جولائی سنہ 2001 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا ۔
قتیل شفائی جن کا اصل نام اورنگ زیب خاں تھا ، سرحد کے ہری پور میں 24 دسمبر سنہ 1919کو پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ اس لئے انہوں نے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی ۔ لیکن ان حالات میں کائنات کا خوب مطالعہ کیا ۔ کبھی کسی ورکشاپ میں کام کیا اور کبھی مزدوری کی ۔ لیکن ان حالات میں بھی شاعری کرتے رہے ۔ تب انہیں سنہ 1946 میں” ادب لطیف“ کے مدیر نذیر احمد نے بلا کر ان کی صلاحیتوں کے پیش نظر رسالے کا نائب مدیر بنا دیا اور پھر اس کے بعد قتیل شفائی کے ادبی جذبات کو جِلا حاصل ہوئی اور وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے ۔
ہندو ۔ پاک کے ادبی حلقوں میں ا ن کے کلام کی خوب دھوم مچی ۔ کیونکہ ان کا کلام ایک جانب جہاں رومانی تھا وہیں غنائی ۔ جسے ہر شخص گنگنانا پسند کرتا تھا اورا ن کی باتیں دل کو چھو جاتی تھیں ۔ ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سیدھے اس کے دل میں اتر رہا ہے ۔
عوامی سطح پر تو قتیل شفائی کو مقبولیت حاصل ہی ہو ئی اس کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی ان کے کلام کو سراہا گیا ۔
کئی رسائل نے ان پر گوشے اور یاد گار نمبر شائع کئے ۔ ا ن کے کلام کے مجموعے ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ۔ کئی اشعار تو زبان زد خاص و عام ہیں ۔
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی کے کلام میں سادگی ہے اور ساتھ ساتھ پرکاری بھی ۔ ان کے اندر کلاسیکی رچاﺅ ہے کیونکہ انہوں نے روایت سے اپنا رشتہ قائم رکھا ہے اسی لئے ان کے اشعار میں خوبصورتی بھی ہے اور ذائقہ بھی ۔
انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا جانو تم کیا سمجھو بات میری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھیں دیکھی ہیں آج کسی ہر جائی کی
دل کو غم حیات گوارا ہے ان دنوں
پہلے جو درد تھا وہی چارہ ہے ان دنوں
یہ دل ذرا سا دل تری یادوں میں کھو گیا
ذرے کو آندھیوں کا سہارا ہے ان دنوں
اپنے ہاتھوںکی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں نصیب تیرا اپنا بنا لے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاﺅں قتیل
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
دیر سے آج مرا سر ہے ترے زانوں پر
یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو
تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے
دور تک چھائے تھے بادل او رکہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرائے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
قتیل کے نغمے اس قدر مقبول تھے کہ ہند ۔ پاک کا شاید ہی کوئی ایسا گلو کار ہو جس نے انہیں نہ گایا ہو اس لئے موت کے 9 برسوں بعد بھی ان کے نغمے فضا میں گونجتے رہتے ہیں ۔
مقبول ترین
1